اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندو خیل نے بدھ کو کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے والے جج متعلقہ حکام کے تحت کام کرتے ہیں۔
یہ تبصرے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے ایک اندرونی عدالت میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران کیے گئے۔
عدلیہ کے سات رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، اور بینچ میں جسٹس مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسررت ہلالی، اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس ہلالی نے سوال کیا کہ کیا چارج فریم کرنے سے پہلے تحقیقات کی گئی؟ جس پر جسٹس مظہر نے جواب دیا کہ پہلے تحقیقات کی جاتی ہیں اور اس کے بعد باضابطہ الزامات لگائے جاتے ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارس نے کہا کہ قانون ٹرائل اور منصفانہ ٹرائل کے درمیان واضح تفریق کرتا ہے۔
جسٹس اظہر نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے والے ملزم کو اگر وہ وکیل نہیں لے سکتا تو ریاستی طور پر وکیل فراہم کیا جاتا ہے؟ جس پر حارس نے تصدیق کی کہ ریاست کی طرف سے قانونی نمائندگی فراہم کی جاتی ہے۔
جسٹس مندو خیل نے کہا کہ عدالت عموماً ملزم کو “عدالتی بچے” کے طور پر دیکھتی ہے، اور سوال کیا کہ کیا یہی صورتحال فوجی عدالتوں میں بھی ہے؟ جس پر خواجہ حارس نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
جسٹس افغان نے کہا کہ بطور بلوچستان کے چیف جسٹس، وہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنتے رہے ہیں اور ان فیصلوں میں کبھی بھی صرف ملزم کو قصوروار یا بے گناہ قرار دینے کے لیے کاغذ پر کچھ نہیں لکھا گیا۔
جسٹس رضوی نے سوال کیا کہ کیا شہری ملزموں کے خاندان یا میڈیا کو فوجی عدالتوں کی کارروائی تک رسائی حاصل ہوتی ہے؟ جس پر حارس نے بتایا کہ قانون کے مطابق اہل خانہ اور میڈیا کو رسائی فراہم کی جاتی ہے لیکن سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے یہ اکثر محدود ہوتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس ہلالی نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے شہریوں پر اثرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ معاشرہ پہلے ہی قانون کی حکمرانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔