پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلوں کے تعلقات، خاص طور پر کرکٹ، میں ایک وقت تھا جب سیاست سے بالاتر ہو کر دونوں ممالک کے کھلاڑی ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ 1998 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے یہ کہا تھا کہ کھیلوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے، اور اس کے برعکس بھارت کی شیو سینا جیسی جماعتوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت آنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ واجپئی نے اس وقت نواز شریف کی پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجنے کی کوشش کو سراہا تھا۔
تاہم وقت کے ساتھ بھارت میں سیاست نے کھیلوں پر اثر ڈالا، خاص طور پر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد۔ ان کے دور میں کھیلوں، موسیقی اور ثقافتی تبادلے کو سیاست کے اثرات کا سامنا رہا ہے، اور کرکٹ جیسے کھیل اب سیاسی بیانیے کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس وقت بھارت نے پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، اور یہ بھی غیر واضح ہے کہ بھارتی کپتان روہت شرما لاہور میں دوسرے ٹیموں کے کپتانوں کے ساتھ گروپ فوٹو سیشن میں شرکت کریں گے یا نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کے درمیان دوستانہ تعلقات برقرار ہیں، اور دونوں ٹیمیں چاہتی ہیں کہ وہ اپنے عوام کے سامنے کھیلیں۔ 1999 کا کرکٹ سیریز دونوں ممالک کے لیے کامیاب رہی تھی، اور اس دوران دونوں ٹیموں کے درمیان خیرمقدم کا تبادلہ ہوا تھا۔ اس کے علاوہ 2018 میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی کرکٹرز کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا تھا، جسے بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے شرکت کی تھی۔
لیکن اب بھارت کی حکومت کھیلوں اور دیگر غیر سیاسی سرگرمیوں کو سیاست کے ساتھ جوڑ چکی ہے، جس کے باعث دونوں ممالک کے عوام کا آپس میں میل جول کم ہو رہا ہے۔ کرکٹ جیسے کھیل جو دونوں ممالک کے عوام کو یکجا کر سکتے ہیں، اب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف کرکٹ بلکہ دیگر کھیلوں میں بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔