پنجاب میں حالیہ شدید آندھی اور طوفان نے بڑے پیمانے پر عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی ذمہ داری صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے چھتوں پر غیر معیاری طریقے سے نصب کیے گئے شمسی پینلز پر عائد کی ہے۔ جیو نیوز کے صبح کے پروگرام “جیو پاکستان” پر بات کرتے ہوئے، ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے پنجاب، عرفان علی کاٹھیا نے موسمی حالات کو “غیر معمولی” اور “توقعات سے بڑھ کر” قرار دیا۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ شدید بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی، لیکن نظام کی انتہائی شدت کی توقع نہیں تھی۔ کاٹھیا نے انکشاف کیا کہ اب تک پنجاب بھر میں عمارتوں کے گرنے کے 124 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 80 فیصد واقعات براہ راست چھتوں پر لگے شمسی پینلز سے منسلک تھے جن کی تنصیب کے دوران ناکافی حفاظتی اقدامات اختیار کیے گئے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا، “80 فیصد منہدم ہونے والے واقعات میں سولر پلیٹس شامل تھیں۔ تین واقعات کے علاوہ، دیگر تمام ان تنصیبات کی وجہ سے ہوئے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، “ہم شمسی ٹیکنالوجی کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن ایسے حادثات سے بچنے کے لیے تنصیبات کو محفوظ ہونا چاہیے۔”
موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے شدید موسم کے اثرات: پی ڈی ایم اے کے خدشات
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل نے حالیہ شدید موسم کو موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر نمونوں سے بھی جوڑا۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں عالمی درجہ حرارت میں ایک سے دو ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے، وہیں پاکستان میں اچانک چار سے پانچ ڈگری کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ شدید گرمی کی لہریں آ رہی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی، “ہم عالمی درجہ حرارت میں 1°C سے 1.5°C اضافے کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب ہم نے موسم گرما کے دوران اچانک 7°C کا اضافہ دیکھا ہے، جس کے نتیجے میں شدید گرمی کی لہریں آئی ہیں۔”
کاٹھیا نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ بگڑتے ہوئے موسمی حالات کے لیے تیار رہیں، اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور شدید موسمی واقعات کے درمیان واضح تعلق پر زور دیا۔ اس کے جواب میں، حکومت نے مختلف حفاظتی اقدامات نافذ کیے ہیں، جن میں پانی کی فراہمی میں اضافہ اور ابتدائی وارننگ سسٹم شامل ہیں۔ تاہم، کاٹھیا نے علاقائی تعاون اور مضبوط طویل مدتی حکمت عملیوں کی اہم ضرورت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے آخر میں کہا، “درجہ حرارت میں کسی بھی حقیقی کمی کے لیے ہمیں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے — شجرکاری، بہتر شہری منصوبہ بندی، اور پورے جنوبی ایشیا میں اجتماعی کوششیں۔”