مذہبی بنیادوں پر سفری پابندی کے خلاف امریکی کانگریس میں NO BAN ایکٹ دوبارہ پیش

مذہبی بنیادوں پر سفری پابندی کے خلاف امریکی کانگریس میں NO BAN ایکٹ دوبارہ پیش


ٹرمپ انتظامیہ کے نئے سفری ضوابط پر ڈیموکریٹس کا سخت ردعمل

ٹیکساس: ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے متنازع مسلم بین کی بحالی کے اقدامات کے پیش نظر، ڈیموکریٹک قانون سازوں نے نیشنل اوریجن بیسڈ اینٹی ڈسکریمنیشن فار نان امیگرنٹس (NO BAN) ایکٹ دوبارہ متعارف کرایا ہے، تاکہ مستقبل میں کسی صدر کو مذہب کی بنیاد پر سفری پابندی عائد کرنے سے روکا جا سکے۔

کانگریس وومن جوڈی چو (CA-28) اور سینیٹر کرس کونز (DE) نے اس بل کو دوبارہ متعارف کرایا، جس کا مقصد امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ میں ترمیم کر کے ویزا یا دیگر امیگریشن فوائد کے اجرا میں مذہبی بنیادوں پر کسی بھی قسم کی تفریق کو روکنا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بل کے تحت کسی بھی سفری پابندی کو مستند شواہد کی بنیاد پر لاگو کیا جائے گا اور کانگریس کی نگرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔

NO BAN ایکٹ کو کئی نمایاں قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے، جن میں جیری نیڈلر (NY-12)، ڈان بیئر (VA-08)، الہان عمر (MN-05)، آندرے کارسن (IN-07)، اور راشدہ طلیب (MI-12) شامل ہیں۔

ٹرمپ کا نیا ایگزیکٹو آرڈر: مسلم بین کی واپسی کا اشارہ

دوبارہ صدر بننے کے پہلے ہی دن، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس میں متعلقہ سرکاری اداروں کو 60 دنوں کے اندر ان ممالک کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا گیا، جن کی سیکیورٹی اور امیگریشن جانچ کے اقدامات کو ناکافی سمجھا جا سکتا ہے، جس سے مسلم اکثریتی ممالک پر نئی سفری پابندیاں عائد ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

کانگریس وومن جوڈی چو نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں نافذ مسلم بین تعصب اور اسلاموفوبیا پر مبنی تھا، جس سے بے شمار خاندان متاثر ہوئے۔ اب وہ ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اس متعصبانہ پالیسی کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی لیے ہم NO BAN ایکٹ دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں، تاکہ کسی صدر کو مذہب کی بنیاد پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے سے روکا جا سکے۔”

سینیٹر کرس کونز نے بھی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: “ٹرمپ کا پہلا مسلم بین غیر منصفانہ، غیر امریکی اور ہمارے عالمی وقار کے لیے نقصان دہ تھا۔ اب وہ ایک بار پھر خوف اور تعصب کے ذریعے امیگریشن پالیسی بنا رہے ہیں۔ NO BAN ایکٹ پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے، تاکہ اس قسم کے امتیازی اقدامات کو روکا جا سکے اور مذہبی آزادی کو تحفظ دیا جا سکے۔”

NO BAN ایکٹ کے اہم نکات

یہ بل درج ذیل اقدامات کے ذریعے مذہبی بنیادوں پر کسی بھی سفری پابندی کو روکنے کے لیے پیش کیا گیا ہے:

  • امیگریشن اور نیشنلٹی قوانین میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو ممنوع قرار دینا۔
  • کسی بھی سفری پابندی کے لیے مستند جواز فراہم کرنا اور اسے مخصوص سیکیورٹی خدشات تک محدود رکھنا۔
  • سفری پابندی کے نفاذ کے 48 گھنٹوں کے اندر کانگریس کو مطلع کرنا اور اس بارے میں باقاعدہ اپ ڈیٹس فراہم کرنا۔

NO BAN ایکٹ کے ساتھ ساتھ، رکن کانگریس پرمیلا جے پال (WA-07) اور سینیٹر ایلکس پیڈیلا (CA) نے ایک اور بل “Access to Counsel Act” دوبارہ پیش کیا ہے، جس کے تحت امریکی شہریوں، گرین کارڈ ہولڈرز، اور قانونی ویزا رکھنے والے افراد کو اگر کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن (CBP) کے حکام ایک گھنٹے سے زیادہ حراست میں رکھیں، تو انہیں وکیل یا خاندان کے فرد سے رابطے کا حق حاصل ہوگا۔

یہ اقدام 2017 کے مسلم بین کے ردعمل میں پیش کیا گیا ہے، جب ہزاروں مسافروں کو امریکی ہوائی اڈوں پر روکا گیا اور اکثر کو قانونی مدد سے محروم رکھا گیا۔

قانون سازوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل

ٹرمپ کی مجوزہ سفری پابندی کی بحالی کے خلاف کئی قانون سازوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی ہے۔

رکن کانگریس جیری نیڈلر (NY-12): “کسی صدر کو خوف اور تعصب کی بنیاد پر مذہبی تفریق کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ NO BAN ایکٹ یقینی بنائے گا کہ ہماری امیگریشن پالیسی امریکی اقدار کی عکاسی کرے، نہ کہ زینو فوبیا کی۔”

رکن کانگریس راشدہ طلیب (MI-12): “لاکھوں مسلمان ٹرمپ کے نفرت انگیز مسلم بین کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ اب وہ اسے دوبارہ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس نسل پرستانہ اور اسلاموفوبک پالیسی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہوگا۔”

رکن کانگریس الہان عمر (MN-05): “ایک ایسے ملک سے تعلق رکھنے کے ناطے جس پر پہلے پابندی عائد کی جا چکی ہے، میں جانتی ہوں کہ اس فیصلے کا خاندانوں پر کتنا تباہ کن اثر پڑتا ہے۔ NO BAN ایکٹ صدر کو کمزور طبقات کو نشانہ بنانے سے روکے گا۔”

رکن کانگریس آندرے کارسن (IN-07): “ٹرمپ کا مسلم بین امریکہ میں اسلاموفوبیا اور نفرت انگیز جرائم کو ہوا دینے کا باعث بنا۔ اس پالیسی کو دوبارہ لاگو کرنا ہمارے معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کرے گا۔”

متعدد انسانی حقوق اور امیگرنٹ ایڈووکیسی تنظیموں، بشمول ACLU، مسلم ایڈوکیٹس، نیشنل امیگریشن لاء سینٹر، اور MPower Change نے NO BAN ایکٹ کی حمایت کی ہے۔

جمال عبادی، صدر نیشنل ایرانی امریکن کونسل ایکشن: “مسلم بین کی بحالی ہزاروں امریکی خاندانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرے گی اور ہماری معیشت کو نقصان پہنچائے گی۔ پہلی پابندی کے زخم ابھی بھرے نہیں، اور کانگریس کو اس ناانصافی کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے فوری اقدام کرنا ہوگا۔”

نورن شاہ، ACLU ایکویلٹی ڈویژن کی ڈپٹی ڈائریکٹر: “ہم نے ٹرمپ کے پہلے مسلم بین کے دوران انتشار اور ظالمانہ اقدامات دیکھے۔ ہم تاریخ کو خود کو دہرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ NO BAN ایکٹ امتیازی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ایک اہم دفاع ہے۔”

NO BAN ایکٹ کی دوبارہ پیشی امریکی امیگریشن پالیسی میں مذہبی امتیاز کے خلاف ایک اہم قدم ہے۔ جیسے جیسے ٹرمپ اپنی سفری پابندیوں کو بحال اور وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، کانگریس میں ڈیموکریٹس اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، تاکہ مستقبل میں کوئی صدر مذہب یا قومیت کی بنیاد پر ایسی پابندیاں نہ لگا سکے۔

یہ بل اب کانگریس میں بحث اور ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا، جہاں ڈیموکریٹس کو امید ہے کہ وہ اس متنازع سفری پابندی کی واپسی کو روکنے کے لیے دو طرفہ حمایت حاصل کر سکیں گے۔


اپنا تبصرہ لکھیں