لاہور: انسداد بدعنوانی کی عدالت 6 فروری کو وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی رمضان شوگر ملز کیس میں بریت کی درخواستوں پر فیصلہ سنائے گی۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب انسداد بدعنوانی عدالت کے جج سردار اقبال ڈوگر نے اس کیس کی سماعت کی، جس میں شہباز شریف پر بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی فنڈز استعمال کرتے ہوئے رمضان شوگر ملز کے لیے گندے پانی کے نکاس کے لیے ایک کیریئر تعمیر کروایا، جو ان کے بیٹوں کی ملکیت ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے 18 فروری 2019 کو دائر اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ اس منصوبے سے قومی خزانے کو 213 ملین روپے کا نقصان پہنچا۔
یہ ریفرنس نومبر 2023 میں دوبارہ کھولا گیا تھا جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کی جانب سے کی گئی نیب ترامیم کو عدالت عظمیٰ نے کالعدم قرار دیا تھا۔
شہباز شریف اور حمزہ کو 2019 میں اس کیس میں فردِ جرم کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور ستمبر 2024 میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مقدمے کو منتقل کرنے کی درخواست دی تھی۔ اکتوبر 2024 میں مقدمہ احتساب عدالت سے انسداد بدعنوانی عدالت میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ نیب 500 ملین روپے سے کم مالیت کے مقدمات کی پیروی نہیں کر سکتا تھا۔
سماعت کے دوران شہباز شریف اور حمزہ کے وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ کیریئر صرف رمضان شوگر ملز کے لیے نہیں بلکہ علاقے کے دیگر لوگوں کے لیے بھی تعمیر کیا گیا تھا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ شکایت کنندہ نے نیب کو بتایا تھا کہ وہ اصل میں اس کیس کا مدعی ہی نہیں تھا اور اس نے شہباز شریف اور حمزہ پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے تھے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ نومبر 2023 میں شہباز شریف اور 10 دیگر افراد کو لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کیس میں بری کر دیا تھا۔ نیب نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اسے شہباز شریف کے خلاف مالی بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
2018 کے ریفرنس میں شہباز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک تعمیراتی فرم کو مقابلے کے بغیر کنٹریکٹ دے کر قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔ تاہم، نیب نے خود یہ تسلیم کیا کہ شہباز شریف پر لگائے گئے الزامات نیب آرڈیننس 1999 کے تحت ثابت نہیں ہوتے۔