رمضان ٹرانسمیشن: روحانی بالیدگی ، تجارتی بندھن یا تہذیب و شائستگی کا جنازہ ؟
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
رمضان، جسے رحمت، مغفرت اور نجات کا مہینہ کہا جاتا ہے، اس کا اصل مقصد انسان کو تقویٰ، صبر اور پاکیزگی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر جو تماشا لگایا جاتا ہے، وہ نہ صرف روحانی اقدار کی پامالی ہے بلکہ تہذیب و شائستگی کا جنازہ بھی ہے۔ جس ٹی وی اسکرین کو نیکی، خیرات اور دینی تربیت کا ذریعہ بننا چاہیے، وہاں فحش گفتگو، بیہودہ سوالات اور سنسنی خیز مواد کی بھرمار ہے۔ نام نہاد رمضان ٹرانسمیشنز میں سنجیدگی اور روحانی بیداری کم، اور مصنوعی جذباتی مناظر زیادہ ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے شوبز ستارے، جو سال کے باقی گیارہ مہینے کسی اور رنگ میں دکھائی دیتے ہیں، رمضان میں اچانک ’مذہبی‘ روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ پروگرام اصلاح کے بجائے سنسنی، ہنسی مذاق، اور تجارتی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے پروگراموں میں اسلام کی اصل روح کو پس پشت ڈال کر ریٹنگ اور مشہوری کو فوقیت دی جاتی ہے، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔مگر پیمرا کی نظریں صرف اور صرف پی ٹی آئی پر برجما ہیں کہ میڈیا سے انکی سرگرمیوں کو دور رکھا جاسکے۔ مگر اس کا سبب بھی عیاں ہے! پیمرا، جو ان غیر اخلاقی اور غیر دینی سرگرمیوں کی روک تھام کا ذمہ دار ہے، وہ خود سیاست کے کھیل میں اس قدر مگن ہے کہ اسے اس کھلی بے راہ روی کی نہ تو پرواہ ہے اور نہ ہی فرصت۔ پی ٹی آئی کے معاملات میں الجھا پیمرا شاید یہ بھول چکا ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری میڈیا پر نظر رکھنا اور معاشرتی اقدار کی حفاظت کرنا ہے۔

انسانی معاشرے میں الفاظ کی تاثیر اور میڈیا کی طاقت ہمیشہ سے ایک ایسا ہتھیار رہی ہے جو ذہنوں کی ساخت کو بدلنے، سوچوں کے دھارے موڑنے، اور نظریات کے پیوند لگانے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں، گرین انٹرٹینمنٹ کے رمضان ٹرانسمیشن کے ایک پروگرام میں اداکار دانش تیمور اور ان کی اہلیہ عائزہ خان کی شرکت محض ایک تفریحی مکالمہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ بیانیے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔میزبان رابعہ انعم کے ساتھ ان کی گفتگو میں ایک خاص جملہ چار شادیوں کے بارے میں ایک بیان، ایسا طوفان بن گیا کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ ہر جانب سے تنقید، مباحثے، اور اختلافی آرا کا سیلاب آیا، اور آخرکار دانش تیمور کو معذرت کرنا پڑی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب بے ساختہ تھا، یا پھر یہ سب ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت انجام دیا گیا؟ کیا یہ صرف ایک اداکار کے الفاظ تھے، یا اس کے پیچھے ایک وسیع تر مقصد چھپا ہوا تھا؟ اس پورے منظرنامے میں جو چیز نمایاں ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ تنازع نے پروگرام کو غیرمعمولی شہرت بخشی، یوں جیسے ہر اعتراض اور ہر نکتہ چینی درحقیقت اس پروگرام کو ایک خاص ریٹنگ بوسٹ دینے کے لیے ہی پیدا کی گئی ہو۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں، بلکہ میڈیا کی وہ روایتی چال ہے جس کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے ناظرین کو کسی خاص سمت میں دھکیلا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور پہلو بھی توجہ کا متقاضی ہے گرین انٹرٹینمنٹ کے پس پردہ مالی معاونت کا سوال۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ادارے کو درپردہ ایک عسکری ادارے کی سرپرستی حاصل ہے، وہی ادارہ جو حالیہ دنوں میں دو قومی ملی نغمے بھی جاری کر چکا ہے۔ اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے، تو ایک وسیع تر بیانیہ ابھر کر سامنے آتا ہے—کیا یہ محض تفریحی مواد ہے یا ایک مربوط کوشش کہ عوامی ذہنوں میں مخصوص تصورات کو جڑیں پکڑنے دی جائیں؟ گرین پروڈکشن، جو ڈراموں اور گانوں کے ذریعے پاکستانی عوام کی سوچ میں تبدیلیاں لانے کی سعی میں مصروف نظر آتی ہے، دراصل میڈیا اور ریاستی بیانیے کے اس انوکھے امتزاج کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جہاں تفریح، نظریات، اور طاقت کا ایک ایسا مثلث قائم ہوتا جا رہا ہے جس میں حقیقت اور پروپیگنڈا کی سرحدیں دھندلا رہی ہیں۔
یہ سب محض اتفاقات کا ایک سلسلہ ہے یا ایک گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ؟ یہ فیصلہ ہر اس ذہن پر چھوڑا جا سکتا ہے جو حقیقت اور سراب کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر اتنا طے ہے کہ میڈیا، سیاست، اور ریاستی مفادات کے اس تانے بانے میں کچھ بھی یوں ہی وقوع پذیر نہیں ہوتا ہر منظر کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، اور ہر کہانی کے پیچھے ایک مقصد۔
دوسری جانب پاکستان شوبز کی سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا ہے کہ رمضان ٹرانسمیشنز کی وجہ سے لوگ عبادتوں کو بھول گئے ہیں۔ آج کل کے رمضان ٹرانسمیشنز ٹرینڈ پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے لوگ روزہ رکھتے تھے اب فاقہ کرتے ہیں۔
رمضان کے یہ پروگرام اب محض ریٹنگز بڑھانے اور اسپانسرشپ حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی وی پر رمضان کے دوران سنجیدہ اور مذہبی مواد پیش کیا جاتا تھا۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج کے رمضان پروگرامز میں ہر چیز اسپانسرڈ ہے میزبان کے کپڑوں سے لے کر ان کے ہاتھ میں موجود تسبیح تک، ہر چیز کسی نہ کسی برانڈ کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔
یہ صورتحال ہمیں ایک اور سوال پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے: کیا رمضان واقعی عبادات کا مہینہ ہے، یا یہ صرف ایک مارکیٹنگ سیزن بن چکا ہے؟ یہ صورتِ حال ہمارے معاشرتی زوال کی عکاسی کرتی ہے، جہاں مذہب کو بھی تجارتی مفادات کی نذر کر دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے رجحانات کے خلاف آواز بلند کی جائے اور رمضان جیسے مقدس مہینے کو حقیقی معنوں میں اصلاح اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ بنایا جائے، نہ کہ بے ہودگی اور فحاشی کا اڈہ۔
یہ وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہمیں رمضان کو اصلاح، عبادت، اور قربِ الٰہی کا مہینہ بنانا ہے یا ایک اور کمرشل فیسٹیول؟
یہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔