روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے منگل کے روز یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کی تجویز پیش کی، لیکن یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے انہیں مذاکرات سے باہر رکھنے کا اعلان کیا۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب روس-یوکرین جنگ اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
پیوٹن کا مؤقف: زیلنسکی مذاکرات کے اہل نہیں
پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کا صدارتی عہدہ مارشل لا کے دوران ختم ہو چکا ہے، اس لیے وہ قانونی طور پر یوکرین کے صدر نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یوکرین مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے، تو وہ کسی اور نمائندے کو مذاکرات کے لیے نامزد کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، “اگر مذاکرات اور سمجھوتے کی خواہش ہو، تو وہاں کوئی بھی قیادت کرے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن ہم وہی حاصل کریں گے جو ہمارے مفادات کے مطابق ہوگا۔”
زیلنسکی کی شدید مذمت
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پیوٹن کے بیان پر سخت ردعمل دیا اور انہیں مذاکرات سے فرار اختیار کرنے کا الزام دیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر زیلنسکی نے لکھا، “پیوٹن ایک بار پھر یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ مذاکرات سے خوفزدہ ہیں، طاقتور قیادت سے ڈرتے ہیں، اور جنگ کو طول دینے کے لیے چالاک حربے استعمال کر رہے ہیں۔”
امریکہ کا دباؤ اور ٹرمپ کی مداخلت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس اور یوکرین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کریں۔ 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد، ٹرمپ نے روس پر مزید سخت پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے، جبکہ اشارہ دیا کہ زیلنسکی کسی “معاہدے” پر رضامند ہو سکتے ہیں۔
تاہم، زیلنسکی کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو مذاکرات سے باہر رکھنا پیوٹن کے مفاد میں ہوگا اور یوکرین کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال دے گا۔
پیوٹن: مغربی امداد ختم ہو تو جنگ چند ماہ میں ختم ہو سکتی ہے
پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ اگر مغربی ممالک یوکرین کی فوجی مدد بند کر دیں تو جنگ چند مہینوں میں ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا، “اگر پیسہ اور گولہ بارود ختم ہو جائے تو یوکرین ایک مہینے میں ختم ہو جائے گا۔”
روسی افواج کی پیش قدمی جاری
روسی وزارت دفاع نے منگل کو اعلان کیا کہ روسی فوج نے شمال مشرقی یوکرین کے خارکیف علاقے میں دوریچنا گاؤں پر قبضہ کر لیا ہے۔ جنگ سے قبل یہاں 3,000 سے زائد افراد آباد تھے۔ روسی وزارت نے اسے “آزاد کرانے” کی کارروائی قرار دیا۔
جنگ کے مزید شدت اختیار کرنے کے امکانات کے ساتھ، دونوں ممالک کے درمیان فوری مذاکرات کا امکان کمزور دکھائی دے رہا ہے۔