پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک منسوخ نہیں، صرف مؤخر کی گئی ہے

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک منسوخ نہیں، صرف مؤخر کی گئی ہے


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ایڈووکیٹ علی بخاری نے کہا ہے کہ پارٹی نے اپنی سول نافرمانی کی تحریک منسوخ نہیں کی، بلکہ اسے عارضی طور پر مؤخر کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن حکومت نے بات چیت کے لیے کوئی سنجیدہ ارادہ نہیں دکھایا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مذاکرات کا آغاز حکومت کی ذمہ داری ہے۔

بخاری کے یہ تبصرے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کو مسترد کرنے کے بعد سامنے آئے، جس نے سول نافرمانی کی تحریک کے ممکنہ خطرے کا حوالہ دیا۔ دفاعی وزیر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “گولی کی نوک پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔”

پی ٹی آئی کے قید رہنما عمران خان نے پہلے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے، جن میں 9 مئی 2023 کے فسادات کی عدالتی تحقیقات، 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں، تو وہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے۔ عمران خان نے حکومت سے بات چیت کے لیے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

بخاری نے پی ٹی آئی کی مذاکرات کے لیے آمادگی کو دہراتے ہوئے کہا، “ہم ہمیشہ ذمہ داری کے ساتھ عمل کرتے ہیں،” اور یہ بھی وضاحت کی کہ سول نافرمانی کی تحریک صرف مؤخر کی گئی ہے، منسوخ نہیں۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے اختلافات کے حل کے لیے سنجیدگی نہ دکھانے پر تنقید کی اور کہا کہ مذاکرات کا آغاز حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی کال سے اپنی پارٹی کو الگ کر لیا، تاہم کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کو معاملہ بہ معاملہ حمایت فراہم کریں گے۔ اس دوران پی ایم ایل این کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے پی ٹی آئی کے سیاسی تعلقات میں تبدیلی کا خیرمقدم کیا، لیکن پارٹی کے ماضی کے اقدامات پر تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے نہ تو پرامن تھے اور نہ سیاسی، بلکہ یہ مسلح گروپوں کی کارروائیاں تھیں۔

مخلوط اشارے مذاکرات پر

پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی لیکن یہ واضح کیا کہ وہ “بھیک” مانگنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیاستدان شیر افضال مارواٹ نے مذاکرات کے لیے واضح شرائط کے تعین کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ ابتدا میں سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے، بعد ازاں اس میں ریاستی اداروں کو شامل کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما علی محمد خان نے احتجاج کے دوران حکومت کے کریک ڈاؤن پر تنقید کی اور کہا کہ سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ تشدد کے ذریعے۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے “بھیک” نہیں مانگے گی اور حکومت کی کوشش کو چیلنج کیا کہ عمران خان کو سیاسی عمل سے باہر رکھا جائے۔


اپنا تبصرہ لکھیں