سندھ حکومت کی یونیورسٹی قوانین میں ترمیم کے خلاف احتجاج

سندھ حکومت کی یونیورسٹی قوانین میں ترمیم کے خلاف احتجاج


کراچی:

سندھ حکومت کی طرف سے سندھ یونیورسٹیز اور انسٹیٹیوشنز قوانین میں کی جانے والی مجوزہ ترمیم کے خلاف احتجاجات 6 جنوری سے جاری ہیں، جس کے نتیجے میں سندھ بھر کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔

اساتذہ اور تعلیمی ماہرین اس ترمیم کی شدید مخالفت کر رہے ہیں، جسے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قیادت کے ڈھانچے کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

مجوزہ ترمیم کی تفصیل

یہ متنازعہ بل یونیورسٹیوں کے وی سی (ویس چانسلر) کی تقرری کے عمل میں بیوروکریٹس اور غیر تعلیمی افسران کو بھی شامل کرنے کی تجویز دیتا ہے۔

اکیڈمک حلقے کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی اعلیٰ تعلیم کو نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ ایسے افراد جو تحقیق یا تعلیمی تحقیق میں تجربہ نہیں رکھتے، وہ تحقیق پر مبنی اداروں کی قیادت کیسے کر سکتے ہیں، جن کی درجہ بندی تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

وی سی کی تقرری کے لیے پہلے پی ایچ ڈی کی شرط رکھی گئی تھی، لیکن اسٹینڈنگ کمیٹی کے جائزے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا ہے، اور اب صرف ماسٹرز ڈگری کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انجینیئرنگ یونیورسٹی میں کسی ایسے فرد کو وی سی بنایا جا سکتا ہے جس نے ماسٹرز ان انجینیئرنگ کیا ہو، یا جنرل یونیورسٹی میں کسی ایسے فرد کو وی سی مقرر کیا جا سکتا ہے جس کے پاس آرٹس میں ماسٹرز ہو، اور میڈیکل یونیورسٹی میں بھی کسی ایسے شخص کو وی سی مقرر کیا جا سکتا ہے جس کے پاس متعلقہ شعبے میں ماسٹرز ہو۔

سندھ حکومت کا موقف

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم یونیورسٹیوں کی انتظامیہ میں بہتری لانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ماضی میں جتنے بھی وی سی اور بورڈ کے چیئرمین مقرر کیے گئے، ان پر کرپشن اور ہراسانی کے الزامات تھے۔

حکومت کا خیال ہے کہ مختلف پس منظر کے منتظمین کو تعلیمی اداروں میں مقرر کرنے سے گورننس میں بہتری آئے گی، تاہم وزیرِاعلیٰ نے یہ بھی وضاحت کی کہ اس نئے ڈھانچے کے تحت پروفیسرز بھی وی سی کی تقرری کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔

تعلیمی ماہرین کا ردعمل

تعلیمی ماہرین اس دلیل کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیوروکریٹس بھی کرپشن کے الزامات سے آزاد نہیں ہیں، اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا سندھ کے دیگر محکموں میں بھی انتظامیہ درست کام کر رہی ہے؟

احتجاج اور تعلیمی عمل کی معطلی

سندھ بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی جو عموماً طالب علموں سے بھری رہتی ہے، اس وقت سنسان پڑی ہے، کیونکہ کلاسز کئی دنوں سے معطل ہیں۔ یہ تعلیمی خلل صرف کراچی یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے، بلکہ صوبے کی تمام سرکاری یونیورسٹیاں غیرفعال ہیں۔

طلبہ کے خدشات

احتجاجات کا وقت خاص طور پر پریشان کن ہے کیونکہ طلبہ ابھی حال ہی میں اپنے تعلیمی سال کا آغاز کر چکے تھے۔ کلاسز معطل ہونے کے باعث، طلبہ کو اپنے کورس ورک میں پیچھے پڑنے کا خوف ہے، جس کی وجہ سے امتحانات کی تیاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال نے طلبہ کو ان کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں ڈال دیا ہے۔

پروفیسرز کی مشاورت کا سوال

سندھ کے وزیر اطلاعات، شرجیل میمن سے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ کیا اس بل کو تیار کرتے وقت پروفیسرز، جو کہ تعلیمی شعبے کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، سے مشاورت کی گئی تھی؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کے بارے میں اہم پالیسی تبدیلیاں کرتے وقت اساتذہ کے ساتھ مشاورت ضروری تھی تاکہ فیصلے صحیح اور معلوماتی ہوں۔

ماضی کی مثالیں اور موجودہ خدشات

2018 میں یونیورسٹیز اور بورڈز کی خود مختاری گورنر سندھ سے وزیرِاعلیٰ سندھ کے دفتر میں منتقل کی گئی تھی، جس کے بعد اہم تقرریوں میں تاخیر ہوئی۔ اس کے نتیجے میں، 15 سال بعد بھی سندھ کے تعلیمی بورڈز میں کنٹرولرز، سیکریٹریز اور آڈیٹرز کی تقرری نہیں ہو سکی۔

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے مسائل کے حل کے بجائے ایک نیا بحران کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تعلیمی سرگرمیاں معطل

اساتذہ طلبہ کی پریشانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ کلاسز کے دوبارہ آغاز پر وہ چھوٹے ہوئے نصاب کو مکمل کر لیں گے۔ تاہم، تعلیمی عمل مکمل طور پر معطل ہو چکا ہے، جس میں روزانہ کی لیکچرز اور کورس ورک شامل ہے۔ کچھ تحقیقاتی کام جاری ہیں، لیکن تمام ڈگری پروگرامز فی الحال معطل ہیں۔

حکومت کا موقف

اس سب کے باوجود، سندھ حکومت نے بل کی منظوری کا عزم کیا ہے۔ وزیرِاعلیٰ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ یہ قانون نافذ کیا جائے گا کیونکہ حکومت کو یقین ہے کہ وہ تعلیمی شعبے کے لیے بہترین فیصلہ کر رہی ہے۔ تاہم، حکومت کو کم از کم اساتذہ کے ساتھ بات چیت کر کے ان کے جائز خدشات کا جواب دینا چاہیے۔


اپنا تبصرہ لکھیں