ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو معطل کرنے والے ججز کیخلاف مواخذے کی کارروائی کا امکان

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو معطل کرنے والے ججز کیخلاف مواخذے کی کارروائی کا امکان


رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ٹیکساس: کانگریس میں ایک نیا بِل پیش کیا جا رہا ہے، جس کے تحت ان وفاقی ججز کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز کیا جا سکتا ہے جنہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض اقدامات کو معطل کیا تھا۔ کچھ ریپبلکن اراکین اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تناؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ وائٹ ہاؤس اور ٹرمپ کے حامی اسے “حکومتی اختیارات کی بحالی” کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ ناقدین اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی ججز کے فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ شاید ان ججز کو بھی “دیکھنے کی ضرورت ہے” کیونکہ یہ ایک “سنگین خلاف ورزی” ہے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کے سربراہ ایلون مسک بھی موجود تھے، جنہوں نے بھی عدلیہ کے فیصلوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ریپبلکن پارٹی کے رہنما اینڈریو کلائیڈ، جو ریاست جارجیا سے ایوان نمائندگان کے رکن ہیں، نے اعلان کیا کہ وہ امریکی ضلعی عدالت کے چیف جج جان جے میک کونل جونیئر کے خلاف مواخذے کی قرارداد پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میک کونل نے ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حکومتی اخراجات پر عائد پابندی کو ختم کرے، جسے ریپبلکن اراکین “سیاسی انتقام” قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح، ایریزونا سے ریپبلکن رکن کانگریس ایلی کرین نے بھی وفاقی جج پال اینگل مائر کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا عندیہ دیا ہے۔ اینگل مائر نے DOGE کو امریکی محکمہ خزانہ کے حساس ریکارڈز تک رسائی سے روک دیا تھا، جس پر ریپبلکن حلقوں میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ تاہم، ان فیصلوں کے حوالے سے میک کونل اور اینگل مائر نے کسی قسم کا ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔
اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ججز کے خلاف مواخذے کی تحریک کو ایوان نمائندگان میں تو اکثریتی ووٹ سے منظور کیا جا سکتا ہے، لیکن سینیٹ میں اس کی منظوری کے امکانات نہایت کم ہیں۔ موجودہ سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کی تعداد صرف 53 ہے، جبکہ کسی بھی جج کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر، امریکی عدلیہ کے ججز کا مواخذہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور عام طور پر اس کا اطلاق کرپشن، جھوٹے حلف نامے یا سنگین بدعنوانیوں پر ہوتا ہے۔ آخری بار 2010 میں ایک وفاقی جج کو مالی بے ضابطگیوں کے باعث عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس تناظر میں بعض ماہرین اس اقدام کو “عدلیہ کے خلاف سیاسی ہتھیار سازی” قرار دے رہے ہیں۔ اس پیش رفت میں ایلون مسک ایک نمایاں شخصیت بن کر ابھرے ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر حکومتی بیوروکریسی میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ مسک نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ “صرف ایک نہیں، بلکہ متعدد ججز کے خلاف فوری مواخذے کی ضرورت ہے۔”
ٹرمپ انتظامیہ کو اب تک متعدد عدالتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں کچھ فیصلے خاص طور پر ان کی پالیسیوں کو روکنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں میں واشنگٹن میں ایک وفاقی جج کا حکم شامل ہے، جس میں ٹرمپ حکومت کو بیرون ملک امداد کے لیے مختص فنڈز بحال کرنے کا کہا گیا تھا۔ اسی طرح میری لینڈ کے ایک جج نے حکومت کو 19 سال سے کم عمر ٹرانس جینڈر افراد کے لیے طبی سہولیات کی پابندی کے نفاذ سے روکا تھا۔ نیویارک میں ایک جج نے DOGE کے اہلکاروں کو محکمہ خزانہ کے حساس ریکارڈز تک رسائی دینے سے انکار کیا، جبکہ بوسٹن میں ایک جج نے غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کی پیدائشی شہریت ختم کرنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے حکم کو معطل کر دیا۔ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں بھی عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تناؤ دیکھا گیا تھا، جب مسلم ممالک پر عائد سفری پابندی سمیت دیگر کئی معاملات میں عدالتوں نے ٹرمپ کے احکامات کو معطل کر دیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق، ٹرمپ کے پہلے دور میں وفاقی عدالتوں نے ان کے خلاف 64 فیصلے دیے، جو کہ 1963 سے اب تک دیے گئے مجموعی 127 عدالتی فیصلوں کا نصف ہیں۔ نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ان عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “ججز کو انتظامیہ کے قانونی اختیارات پر کنٹرول کا حق نہیں دیا جا سکتا۔” وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے بھی ان ججز کو “سیاسی سرگرم کارکن” قرار دیا۔ دوسری جانب، اٹارنی جنرل پم بونڈی نے عندیہ دیا کہ محکمہ انصاف ایلون مسک اور ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت کرے گا، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ فوری طور پر ججز کے خلاف مواخذے کا امکان نہیں ہے۔ ریپبلکن سینیٹرز کا اس معاملے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ سینیٹر چک گراسلی نے کہا کہ “ہمارا آئینی نظام چیکس اینڈ بیلنس پر مبنی ہے، اور ہمیں اسی اصول پر چلنے دینا چاہیے۔” جبکہ سینیٹر جان کینیڈی نے کہا کہ “میں عدالتوں کے ہر فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، لیکن میں عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔” اس ساری صورتحال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ججز کو ہٹانے کی یہ مہم زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، لیکن اس کے اثرات عدلیہ پر ضرور پڑ سکتے ہیں۔ برینن سینٹر فار جسٹس کے سینئر وکیل ڈگلس کیتھ کے مطابق، “اگر کانگریس ججز کو ہٹانے کے عمل کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے، تو ججز حکومتی فیصلوں کے خلاف فیصلہ سنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر سکتے ہیں، جو جمہوریت کے لیے خطرناک ہوگا۔” امریکی آئین کے مطابق، ایوان نمائندگان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صدر، نائب صدر اور دیگر سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی ججز کو بھی مواخذے کے ذریعے عہدے سے ہٹا سکے۔ لیکن اس کے لیے ایوان میں سادہ اکثریت اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جو موجودہ حالات میں ریپبلکن پارٹی کے لیے مشکل ہدف ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ 120 سالوں میں صرف 15 وفاقی ججز کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے، جن میں سے 8 کو عہدے سے ہٹایا گیا۔ ان میں پہلا کیس 1803 میں جج جان پکرنگ کا تھا، جنہیں ذہنی عدم استحکام اور نشے کی حالت میں عدالتی فرائض سرانجام دینے کے الزامات پر ہٹایا گیا تھا۔ دیگر ججز کے خلاف مواخذے کے الزامات میں بدعنوانی، ٹیکس چوری، رشوت، اور عدالت کے فیصلوں سے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے معاملات شامل رہے ہیں۔اس صورتحال میں امریکی عدلیہ کے کردار اور اس کی خودمختاری پر سوالات اٹھ رہے ہیں، جبکہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں