کا سب سے آلودہ شہر جبکہ کراچی چوتھا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے۔ سوئس ایئر کوالٹی مانیٹرنگ گروپ “آئی کیو ایئر” کے مطابق، لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 303 تک پہنچ گیا، جو کہ “خطرناک” کی حد میں آتا ہے، جبکہ کراچی کا AQI 200 کے قریب رہا، جو “انتہائی غیر صحت بخش” سطح پر ہے۔
آلودگی کی تشویشناک سطح
PM2.5 آلودگی، جو کہ صحت کے لیے مضر انتہائی باریک ذرات ہیں، کی مقدار عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ہدایات سے 24.2 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ یہ آلودگی بنیادی طور پر گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی سرگرمیوں اور فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہوتی ہے، جو سردیوں کے موسمی حالات میں فضا میں پھنس جاتی ہے۔
آلودہ ترین شہر
ملتان 294 کے AQI کے ساتھ پاکستان کا دوسرا آلودہ ترین شہر رہا، اس کے بعد راولپنڈی (220) اور پشاور (204) تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد 170 کے AQI کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہا۔
آلودگی کے اسباب
لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں گاڑیوں کی بڑی تعداد، وسیع صنعتی سرگرمیاں، اور فصلوں کے بھوسے کو جلانے جیسے عوامل ماحولیاتی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کی بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت کی جانب سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور غیر قانونی صنعتوں پر کارروائی کے باوجود، آلودگی کی سطح خطرناک حد تک برقرار ہے۔
صحت عامہ پر اثرات
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی پہلے ہی پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کا تقریباً 12% سبب بنتی ہے۔ موجودہ اسموگ بحران خاص طور پر بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔ اس شدید آلودگی کے طویل مدتی صحت پر اثرات کا تجزیہ وقت کے ساتھ ممکن ہوگا۔
آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات
حکومت نے بھٹے بند کرنے، صنعتی دھوئیں کو کنٹرول کرنے، اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کو جرمانہ کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، ان اقدامات کے مؤثر نتائج محدود ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے مزید جامع اور پائیدار حل کی ضرورت ہے۔