وفاقی حکومت نے پاکستانی برآمدات کو اضافی امریکی محصولات کا سامنا کرنے سے بچانے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور ذرائع نے پیر کے روز تصدیق کی کہ اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ایک اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفد کی قیادت وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کریں گے، اور وہ پاکستانی مصنوعات پر مجوزہ 29 فیصد محصولات عائد کرنے سے روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اہم مذاکرات کریں گے۔ وزارت تجارت، وزارت خزانہ اور دفتر خارجہ کے اہم حکام بھی مذاکرات کی حمایت کے لیے وزیر کے ہمراہ ہوں گے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پاکستان اس وقت پاکستان کے حق میں 3 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس صورتحال کو متوازن کرنے اور واشنگٹن کی جانب سے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، اسلام آباد نے امریکہ سے اپنی درآمدات میں 2 ارب ڈالر تک اضافہ کرنے کی تجویز دی ہے۔
منصوبے کے مطابق، تجارتی خسارے میں ہر 1 ارب ڈالر کی کمی کے نتیجے میں امریکہ کی جانب سے پاکستانی اشیا پر عائد محصولات میں 9 فیصد کمی واقع ہوگی۔ اس حکمت عملی کے مطابق، پاکستان امریکی مصنوعات جیسے پوما کپاس، مشینری اور سویا بین کا تیل درآمد کر سکتا ہے، جبکہ بستر کی چادریں، ڈینم اور تولیوں کی امریکہ کو اپنی برآمدات میں تخمیناً 500 ملین ڈالر تک اضافہ کرنے پر بھی کام کر رہا ہے۔
تازہ ترین کشیدگی سے قبل، پاکستانی مصنوعات پر اوسط امریکی محصول 9.9 فیصد تھا۔ تاہم، امریکی حکومت نے حال ہی میں 90 دن کی مدت کے لیے اس محصول میں 10 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر کوئی اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو 90 دن کی مدت کے بعد محصولات 29 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں۔
وزارت تجارت کے حکام نے اس بات پر زور دیا کہ بھاری محصول میں اضافے سے بچنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ وسیع تر تجارتی سہولت کاری کی کوششوں کے تحت، پاکستان دوطرفہ تجارتی بہاؤ کو بڑھانے کے لیے غیر محصولات کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی بھی وکالت کر رہا ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک اہلکار نے کہا، “وفد کا فوری مقصد بڑھے ہوئے محصولات پر دوبارہ مذاکرات کرنا اور پاکستانی مصنوعات کے لیے بہتر مارکیٹ تک رسائی کو یقینی بنانا ہے، جبکہ امریکہ کے ساتھ زیادہ متوازن اور پائیدار تجارتی تعلقات کو یقینی بنایا جائے۔”