کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے مشہور کیس میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ پولیس نے جمعہ کی رات اس کی ہلاکت کی تصدیق کی، جو کئی ہفتوں سے لاپتہ تھا۔
یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب مرکزی ملزم ارمغان نے انسدادِ تشدد کرائم سیل (اے وی سی سی) کی ٹیم پر فائرنگ کی، جو قتل اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم کی تحقیقات کرتی ہے۔ اس کارروائی کے دوران ملزم کو ڈیفنس میں اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔
مصطفیٰ، جو بی بی اے کا طالب علم تھا، 6 جنوری کو لاپتہ ہوا۔ چند دن بعد حب چیک پوسٹ کے قریب ایک جلی ہوئی گاڑی میں اس کی جھلسی ہوئی لاش ملی۔ تحقیقات کے مطابق، ارمغان اور مصطفیٰ کے درمیان نئے سال کی رات جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد ارمغان نے اسے نقصان پہنچانے کی دھمکی دی۔
تفتیشی حکام کے مطابق، ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس معاملے میں ملوث خاتون 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی، اور پولیس انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ اس کا بیان انتہائی اہم ہے۔
حب پولیس کے مطابق، 11 جنوری کی شام 7 بجے ایک جلتی ہوئی گاڑی کی اطلاع ملی، جس میں ایک جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ لاش کو سول اسپتال حب منتقل کیا گیا، اور گاڑی کو پولیس اسٹیشن لے جا کر تحقیقات شروع کی گئیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتایا کہ 12 جنوری کو بلوچستان پولیس نے انہیں ایک جھلسی ہوئی لاش سونپی، جو شناخت نہ ہونے کی وجہ سے چار دن تک کراچی کے مردہ خانے میں رہی، پھر ماواچھ گوٹھ کے قبرستان میں دفنا دی گئی۔
مزید تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ دوسرا ملزم، شیراز بخاری عرف شاویز، ارمغان کا ملازم تھا اور قتل کی منصوبہ بندی اور لاش ٹھکانے لگانے میں شامل تھا۔ پولیس نے ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت سے رجوع کیا، لیکن انسدادِ دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے اسے جیل بھیج دیا، جس کے خلاف پولیس نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔
تفتیش کے دوران، پولیس نے ارمغان کے گھر سے خون کے دھبے دریافت کیے، جن کے ڈی این اے ٹیسٹ میں مصطفیٰ کی والدہ سے مطابقت ثابت ہوئی۔ مصطفیٰ کا موبائل فون بھی ملزم کے گھر سے برآمد ہوا، جو کیس میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لاش کی قبر کشائی کے لیے بھی عدالت سے اجازت حاصل کرے گی تاکہ مزید شواہد حاصل کیے جا سکیں۔