کراچی: مصطفیٰ عامر کے قتل کی گتھی ابھی تک نہیں سلجھی، اور ان کی والدہ نے پولیس پر شدید تنقید کرتے ہوئے تحقیقاتی ایس ایس پی ساؤتھ علی حسن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے ویڈیو بیان میں والدہ نے کہا: “ایس ایس پی علی حسن نے میری ایک نہ سنی اور نہ ہی یہ سمجھا کہ میرا بیٹا لاپتہ تھا۔ اگر وہ واقعی لاپتہ تھا، تو یہ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کا پتہ لگاتی۔”
انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ ایس ایس پی مسلسل ان کے بیٹے کو مجرم قرار دیتے رہے اور مطالبہ کیا کہ وہ بتائیں کہ وہ کس کے لیے کام کر رہے تھے۔ مصطفیٰ کی والدہ نے علی حسن کی برطرفی اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پولیس نے 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ وہ 6 جنوری کو لاپتہ ہوئے تھے اور کچھ دن بعد حب چیک پوسٹ کے قریب ایک جلی ہوئی گاڑی میں جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی تھی، جو غالباً مصطفیٰ کی تھی۔
ملزموں کی گرفتاری اور کیس کی تازہ صورتحال
پولیس نے مرکزی ملزم ارمغان کو ڈیفنس میں ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا، جب اس نے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (AVCC) کی ٹیم پر فائرنگ کی۔ اس کے ساتھ ایک اور ملزم شیراز بخاری عرف شاویز کو بھی حراست میں لیا گیا، جو مبینہ طور پر قتل اور لاش کی تلفی کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق، بلوچستان پولیس نے 12 جنوری کو ایک جلی ہوئی لاش ان کے حوالے کی تھی، جو چار دن کراچی کے سرد خانے میں رہی اور بعد میں ماچھ گوٹھ قبرستان میں دفن کر دی گئی۔
ڈی این اے رپورٹ سے یہ تصدیق ہوئی کہ ارمغان کے گھر سے ملنے والے خون کے نمونے مصطفیٰ کی والدہ کے نمونوں سے میچ کر گئے، جس سے قتل کے شبہات مزید مضبوط ہو گئے۔
عدالتی کارروائی اور تحقیقات
پولیس نے ایدھی فاؤنڈیشن کے دفن کردہ جسد خاکی کی نبش قبر کے لیے درخواست دائر کی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے محکمہ صحت سندھ کو سات روز میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔
سندھ ہائی کورٹ (SHC) نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ مرکزی ملزم ارمغان کو کل (منگل) صبح 9:30 بجے عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے کیس کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے پولیس کی درخواست پر غور کرنے کا عندیہ دیا، جس میں ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد ہونے پر اعتراض کیا گیا تھا۔
ارمغان کا عالمی جرائم سے ممکنہ تعلق
تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ارمغان عالمی ڈرگ مافیا اور بین الاقوامی فراڈ اسکیموں میں ملوث ہو سکتا ہے۔
پولیس کے مطابق، ارمغان کراچی کے علاقے خیابانِ مومن میں ایک 1000 گز کے بنگلے میں رہائش پذیر تھا، جہاں وہ ایک کال سینٹر چلا رہا تھا۔ اس کال سینٹر میں 30 ملازمین اور تقریباً 40 سیکیورٹی گارڈز تعینات تھے۔
پولیس نے اس کے گھر سے 64 لیپ ٹاپ برآمد کیے، جبکہ معلوم ہوا کہ اس کا ایک دفتر تین تلوار کے علاقے میں بھی تھا، جہاں سے اس کے کال سینٹر کی سرگرمیاں چلائی جا رہی تھیں۔
مزید انکشافات اور ممکنہ شواہد
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق، ارمغان نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے دو شناختی کارڈ بنوا رکھے تھے، ایک اپنے اصل نام پر اور دوسرا “ساقب ولد سلمان” کے نام سے، جو اس نے منشیات کے مقدمات میں گرفتاری کے بعد جعلی طور پر حاصل کیا تھا۔
پولیس نے سی ٹی ڈی کو اسلحے کی جانچ کی ہدایت دی ہے، جو ارمغان کے گھر سے برآمد کیا گیا تھا۔ یہ اسلحہ کہاں اور کیسے استعمال ہوا، اس کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا جائے گا۔
یہ بھی رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ ایک خاتون، رمشا شاہد، جو مبینہ طور پر مصطفیٰ اور ارمغان دونوں کے قریب تھیں، کیس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ تاہم، پولیس نے اس معاملے کو محض افواہ قرار دیا ہے۔ رمشا 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھیں، اور پولیس ان سے رابطے کے لیے انٹرپول سے مدد لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
نتیجہ
یہ کیس روز بروز پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، اور پولیس کی تحقیقات کئی نئے انکشافات کر رہی ہیں۔ مصطفیٰ عامر کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں، جبکہ ارمغان کی ممکنہ مجرمانہ سرگرمیوں کا پردہ فاش ہونا ابھی باقی ہے۔ عدالتی کارروائی اور تحقیقاتی رپورٹس آئندہ دنوں میں مزید تفصیلات فراہم کریں گی۔