شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل: آرمی ایکٹ کے تحت اختیارات پر سپریم کورٹ کا سوال

شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل: آرمی ایکٹ کے تحت اختیارات پر سپریم کورٹ کا سوال


سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مزہر نے کہا ہے کہ شہری محض فوجی چوکی کے قریب کھڑے ہونے پر فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا نہیں کریں گے، لیکن اگر آرمی ایکٹ کے تحت جرم کریں تو ضرور۔

یہ ریمارکس اس وقت دیے گئے جب آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اس پر تشویش ظاہر کی کہ کیا فوجی اختیارات کو شہریوں پر لاگو کرنا آئینی ہے۔

دفاعی وزارت کے وکیل خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں شہریوں کے کورٹ مارشل کو مخصوص حالات میں جائز قرار دیا تھا۔ جسٹس مندوخیل نے اس پر سوال اٹھایا کہ کیا وزارت دفاع جیسا ادارہ خود مدعی اور جج بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین انتظامیہ کو عدالتی اختیارات دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ صرف فوجی اہلکاروں تک محدود نہیں بلکہ مخصوص حالات میں شہریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

جسٹس جمال نے آرٹیکل 8(3) کے تحت فوجی اختیارات کے دائرہ کار پر سوال اٹھایا، جبکہ جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ فوجی نظم و ضبط کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ شہریوں کے حقوق محدود کرنے کے لیے۔

لاہور جیل میں غیر منصفانہ سلوک کے الزامات

سماعت کے آخر میں صحافی حفیظ اللہ نیازی نے اپنے بیٹے کے ساتھ جیل میں سلوک پر تشویش کا اظہار کیا، جنہیں حال ہی میں فوجی عدالت سے سزا سنائی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے سمیت 22 قیدیوں کو لاہور جیل کے ہائی سیکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں جیل مینول کے مطابق سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے پنجاب اور وفاقی حکومتوں کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر تنقید کی اور حکومت سے وضاحت طلب کی کہ جیل مینول کے مطابق قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کیوں نہیں ہو رہا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ وہ قیدیوں کے حوالے سے شکایات پر رپورٹ فراہم کرے اور شفافیت کو یقینی بنائے۔

سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی، اور دفاعی وزارت کے وکیل کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔


اپنا تبصرہ لکھیں