پشاور: خیبرپختونخوا کے محکمہ انسانی حقوق میں 230 ملازمین کی غیر قانونی بھرتیوں کے معاملے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ محکمہ مواصلات و تعمیرات کے سیکریٹری اسد علی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزیر اور سابقہ سیکریٹری پر غیر قانونی بھرتیوں کا منصوبہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
بی پی ایس-20 کے افسر اور انسانی حقوق کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کے خلاف باضابطہ اپیل دائر کر دی ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’اس وقت کے وزیر قانون اور سیکریٹری قانون کے احکامات کے مطابق میری 23 فروری 2021 کی ہدایات کو مسترد کر دیا گیا۔‘‘
سابق صوبائی وزیر اکبر ایوب خان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف دو ماہ کے لیے عارضی چارج دیا گیا تھا اور وہ بھرتی کے عمل میں شامل نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کا کوئی کردار ہوتا تو دو سالہ تحقیقات کے دوران انہیں طلب کیا جاتا۔
اپنی تفصیلی اپیل میں، علی نے دفاع پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ شفافیت اور میرٹ پر یقین رکھتے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے 23 فروری 2021 کو بھرتیوں کے عمل میں بے قاعدگیوں کے باعث اسے منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم، اس وقت کے وزیر قانون اور سیکریٹری نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور بھرتیوں کا عمل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
اپیل میں علی نے کہا کہ شفافیت ان کی اولین ترجیح رہی ہے، اسی جذبے کے تحت انہوں نے بھرتیوں کے عمل میں کسی بھی بے ضابطگی کی صورت میں اسے منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ سیکریٹری نے منسوخی کی سمری منظور کر لی اور تقرری کے تمام آفر لیٹرز واپس لے لیے گئے۔
بعد میں، اعلیٰ حکام نے اس فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت کی، اور 12 مارچ 2021 کو سیکریٹری قانون و انسانی حقوق کو جاری کردہ خط کے ذریعے منسوخی کے احکامات واپس لے لیے گئے۔ وزیر قانون و انسانی حقوق کے خط میں یہ بھی درج تھا کہ بھرتی کا عمل قواعد و ضوابط کے مطابق تھا، اور ایک کمیٹی کو امیدواروں کی درخواستوں کی جانچ کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
علی کا مؤقف ہے کہ بھرتیوں کے عمل میں ان کا کردار محدود تھا۔ اکتوبر 2020 سے فروری 2021 تک وہ ایک سینئر مینجمنٹ کورس میں شرکت کر رہے تھے، اور اس دوران بھرتیوں کا عمل ان کی عدم موجودگی میں مکمل ہوا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ شارٹ لسٹنگ اور اسکریننگ کمیٹیاں سینئر افسران پر مشتمل تھیں جو امیدواروں کی درخواستوں کی جانچ کر رہی تھیں، اور وہ خود کسی انٹرویو میں شامل نہیں تھے۔
اپیل میں، علی نے اس بات پر زور دیا کہ عدم موجودگی کے باوجود انہوں نے شفافیت کو ترجیح دی اور بے ضابطگیوں کا علم ہوتے ہی بھرتیوں کی منسوخی کی سفارش کی، جسے بعد میں سیکریٹری قانون نے منظور کر لیا۔
مزید برآں، انہوں نے انکوائری کمیٹی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ بھرتیوں کی منسوخی کو تسلیم نہ کرنا اور وزیر قانون کی توثیق کو نظرانداز کرنا تحقیقات کو غیر منصفانہ بناتا ہے۔
انہوں نے ان الزامات کو ’’بے بنیاد، من گھڑت اور حقائق کے برعکس‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کرنے کی اپیل کی ہے۔