اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ رولز 2025 میں کی گئی ترامیم پر سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور ہائی کورٹ کے تمام ساتھی ججوں کو لکھے گئے ایک خط میں فل کورٹ میٹنگ بلائے بغیر کی گئی تبدیلیوں کی قانونی حیثیت اور طریقہ کار پر سوال اٹھایا۔
خط میں، جسٹس ستار نے کہا کہ یہ ترامیم آئین اور قانونی ضابطوں دونوں کی خلاف ورزی ہیں، کیونکہ یہ مناسب اختیار اور طریقہ کار کے بغیر کی گئی تھیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ تبدیلیاں آئین کے آرٹیکل 208 اور لاہور ہائی کورٹ رولز سے متصادم ہیں، جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ایک فریم ورک کے طور پر اپنایا تھا۔
جسٹس ستار نے اس بات پر زور دیا کہ آرٹیکل 192 کے تحت، قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے ججوں کے پاس ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ اختیار کسی دوسری ہستی کو تفویض نہیں کیا جا سکتا یا متبادل طریقوں سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے لکھا، “یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ قانون کے تحت دیئے گئے صوابدیدی اختیارات کو قانون میں ترمیم کیے بغیر کسی اور کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے مزید نوٹ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ رولز 2025 کے گزٹ نوٹیفکیشن ان تک پہنچ گیا تھا، اور انہیں کوئی ایسی فل کورٹ میٹنگ یاد نہیں جس میں پچھلے 2011 کے قواعد کو منسوخ کیا گیا ہو یا ان پر بحث بھی کی گئی ہو۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس سے نئے قواعد قانونی طور پر غلط ہو گئے۔
جسٹس ستار نے خبردار کیا کہ 2025 میں متعارف کرائے گئے قواعد قانونی اختیار کے بغیر وضع کیے گئے ہیں اور آرٹیکل 208 کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے فوری اصلاحی اقدامات پر زور دیا، اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ایسی طریقہ کار کی غلطیاں عدالتی ملازمین کے حقوق پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور ہائی کورٹ کے لیے ادارہ جاتی شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں۔
انہوں نے خط کا اختتام اس مسئلے کی فوری اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے کیا تاکہ مزید قانونی پیچیدگیوں کو روکا جا سکے اور عدلیہ کی سالمیت کو برقرار رکھا جا سکے۔