اسرائیل نے 620 فلسطینی قیدیوں کی مجوزہ رہائی میں تاخیر کا اعلان کیا ہے، جس سے حماس کے ساتھ نازک جنگ بندی معاہدہ دباؤ کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ اتوار کی صبح کیا گیا، جس کے بعد حماس نے الزام عائد کیا کہ وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو جان بوجھ کر معاہدہ سبوتاژ کر کے غزہ میں فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
قیدیوں کی رہائی پر بڑھتی ہوئی کشیدگی
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ رہائی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک حماس کچھ مخصوص شرائط پوری نہیں کرتی، جن میں یرغمالیوں کو عوامی تقریبات میں پیش نہ کرنا شامل ہے۔ اسرائیل کے مطابق، یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
جواب میں، حماس نے ان تقریبات کا دفاع کرتے ہوئے انہیں “فلسطینی اتحاد کی علامت” قرار دیا۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے اسرائیل پر متعدد خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا، جن میں:
- 100 سے زائد فلسطینیوں کا قتل
- انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ
- معاہدے کے مطابق نیٹزاریم کوریڈور سے فوجی انخلا میں ناکامی
جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ خطرے میں
جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 19 جنوری کو شروع ہوا تھا، جس کا مقصد قیدیوں کا تبادلہ، انسانی امداد کی فراہمی اور کچھ علاقوں سے اسرائیلی فوج کا انخلا تھا۔ دوسرا مرحلہ، جو یکم مارچ سے شروع ہونا تھا، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور ممکنہ مستقل جنگ بندی کا منصوبہ رکھتا تھا۔
تاہم، نیتن یاہو کی ہچکچاہٹ نے معاہدے پر عمل درآمد پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، رون ڈرمر کو مذاکرات کی قیادت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جو نیتن یاہو کی غزہ سے فوجی انخلا کی مخالفت کو ظاہر کرتا ہے۔
غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین
غزہ میں انسانی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، جہاں 2.4 ملین میں سے 90% سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی کارروائیوں میں 48,319 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 13,000 سے زائد افراد ملبے تلے لاپتہ ہیں۔
اسرائیل نے اب تک 60,000 موبائل گھروں اور 200,000 خیمے غزہ بھیجنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔
غیر یقینی مستقبل
یکم مارچ کو پہلے مرحلے کے ختم ہونے کے بعد، یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل معاہدے کا احترام کرے گا یا دوبارہ فوجی کارروائی شروع کرے گا۔
تل ابیب میں مظاہرے شدت اختیار کر چکے ہیں، جہاں یرغمالیوں کے اہل خانہ ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیلی حکومت اور فوج کے اندر موجود دھڑے حماس کو مزید کمزور کرنے کے لیے ایک نئی کارروائی پر زور دے رہے ہیں۔
قطر اور مصر میں ثالثی کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اسرائیل کی ہچکچاہٹ معاہدے کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ اب دنیا کی نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ یہ نازک جنگ بندی ایک مستقل امن کی شکل اختیار کرے گی یا ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف بڑھے گی۔