ایران جوہری معاہدے پر امریکہ سے مذاکرات: عمان میں ملاقات اور علاقائی کشیدگی


ایک امریکی اہلکار نے بدھ کی رات دیر گئے بتایا کہ امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اتوار کو عمان میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کرنے اور جوہری معاہدے کے لیے حالیہ امریکی تجویز پر ایران کے ردعمل پر تبادلہ خیال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ایران نے پیر کو کہا تھا کہ وہ امریکہ کو جوہری معاہدے کے لیے جلد ایک جوابی تجویز پیش کرے گا، جس کو تہران “ناقابل قبول” سمجھتا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بات چیت جاری رہے گی۔

ٹرمپ نے پیر کو ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ انہیں اس بات پر کم یقین ہے کہ ایران واشنگٹن کے ساتھ جوہری معاہدے میں یورینیم کی افزودگی روکنے پر راضی ہو جائے گا۔

امریکی صدر ایک نئے جوہری معاہدے کے خواہاں ہیں تاکہ ایران کی متنازع یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی جا سکیں اور اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو اسلامی جمہوریہ کو بمباری کی دھمکی دی ہے۔

ایران طویل عرصے سے کہتا رہا ہے کہ اس کا جوہری ہتھیار تیار کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ صرف ایٹمی بجلی کی پیداوار اور دیگر پرامن منصوبوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے پہلے وائٹ ہاؤس کے دور میں امریکہ کو 2015 کے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے نکال لیا تھا، جس میں تہران کی یورینیم افزودگی کی مہم پر بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے بدلے پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کئی دہائیوں پرانے ہیں۔ تہران کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے اس کے معاملات میں مداخلت کی ہے، جس کی مثالیں 1953 میں ایک وزیراعظم کے خلاف بغاوت سے لے کر 2020 میں اس کے فوجی کمانڈر کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت تک دی جاتی ہیں۔

واشنگٹن ایران کی مشرق وسطیٰ، لبنان اور یمن میں عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کا حوالہ دیتا ہے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ایران امریکہ کے اتحادی اسرائیل اور خطے میں واشنگٹن کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔

عسکریت پسند گروپ خود کو مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی اور امریکی اثر و رسوخ کے خلاف “مزاحمتی محور” قرار دیتے ہیں۔

ٹرمپ نے بدھ کو کہا کہ امریکی اہلکاروں کو مشرق وسطیٰ سے منتقل کیا جا رہا ہے کیونکہ “یہ ایک خطرناک جگہ ہو سکتی ہے۔”

امریکی اہلکاروں کو نکالنے کا یہ فیصلہ خطے میں ایک غیر مستحکم لمحے میں سامنے آیا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں