سندھ طاس معاہدہ: تفصیلات، معطلی کی وجوہات اور موجودہ صورتحال


سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا۔

اس کا مقصد پانی کے استعمال پر تنازعات کو روکنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کو باقاعدہ بنانا تھا۔

معاہدے کی تفصیلات

دریاؤں کی تقسیم

معاہدے کے تحت، چھ بڑے دریاؤں کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

مشرقی دریا: ستلج، بیاس، راوی

ان دریاؤں پر بھارت کو مکمل کنٹرول حاصل ہوا۔

مغربی دریا: سندھ، جہلم، چناب

معاہدے نے ان دریاؤں کے آبی وسائل پاکستان کو مختص کیے لیکن بھارت کو آبپاشی کے علاوہ مخصوص منصوبے جیسے پن بجلی کی ترقی کرنے کی اجازت دی۔

نگرانی اور معلومات کا تبادلہ

دونوں ممالک ہر سال پانی کے بہاؤ، منصوبوں اور استعمال کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کے پابند ہیں۔

معاہدے کے تحت ایک مستقل سندھ طاس کمیشن قائم کیا گیا۔

بھارت نے معاہدہ کیوں معطل کیا؟

2023-24 کے دوران، بھارت نے ناراضگی کا اظہار کیا جب پاکستان نے اپنے پن بجلی کے منصوبوں جیسے کشن گنگا اور رتلے ڈیموں پر اعتراضات کے لیے ثالثی کی عدالت سے رجوع کیا۔

بھارت نے استدلال کیا کہ پاکستان کو ثالثی پر جانے سے پہلے تکنیکی مشاورت کرنی چاہیے تھی۔

بھارت نے معاہدے پر نظرثانی کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو معاہدے کو ختم یا ترمیم کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے ایک سفارتی نوٹس بھیجا۔

معطلی پر بات چیت ایک سیاسی اشارے اور سفارتی دباؤ ڈالنے کے ایک ذریعہ کے طور پر کام کرتی رہی۔ معاہدہ اب بھی فعال ہے کیونکہ بھارت نے دستبرداری اختیار نہیں کی ہے لیکن اب اس کے نفاذ کو روکنے کی دھمکی دے رہا ہے۔

کیا اصل حیثیت خود بخود بحال ہو گئی ہے؟

مکمل طور پر نہیں، لیکن جزوی طور پر۔

معاہدے کے ضامن کے طور پر، عالمی بینک نے ابھی تک بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

پاکستان نے مدد کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی بینک دونوں سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔

ثالثی کی عدالت نے 2024 میں ایک فیصلہ سنایا جس میں پاکستان کے موقف کو برقرار رکھتے ہوئے بھارت کے منصوبوں کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔

دونوں ممالک کے سندھ طاس کمیشن نے فیصلے کے بعد دوبارہ ملاقاتیں کیں، جو معاہدے کے بنیادی اصولوں کی تجدید کو ظاہر کرتا ہے۔

اہم نکات

سندھ طاس معاہدہ قانونی طور پر برقرار ہے۔

بھارت کی جانب سے دباؤ اور نظرثانی کی کوششیں سفارتی چالیں تھیں جنہیں بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔

ثالثی کی عدالت اور عالمی بینک کی موجودگی معاہدے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

پاکستان کو پانی کے مسئلے پر سفارتی، قانونی اور سائنسی محاذوں پر مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے۔


اپنا تبصرہ لکھیں