عدالتِ وقت میں ماں، کالا کوٹ، سندھ دھرتی: ایک نوحہ، ایک مقدمہ


عدالتِ وقت میں ماں، کالا کوٹ، سندھ دھرتی: ایک نوحہ، ایک مقدمہ

تحریر: راجا زاہد اختر خانزادہ

(ادبی خراج: ادی نورالہدیٰ شاہ کی نظم “ڪارو ڪوٽ” سے متاثرہوکر )

منظر: وقت کی عدالت ہے۔ خاموش، باوقار، ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی۔ منصف کوئی نہیں یا شاید ہے، مگر وہ بولتا نہیں ایک ماں، تھکی ہاری، زخمی اور صدیوں کی خاموشی اوڑھے،عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ اُس نے کالا کوٹ پہن رکھا ہے۔ آج وہ خود اپنی وکیل ہے۔ اسکی نہ آنکھ میں آنسو ہیں، نہ لب پر شکوہ، صرف خامشی میں ایک صدیوں کا مقدمہ۔ ایک فریاد، جو پانچ ہزار سالہ تہذیب کے بطن سے اٹھتی ہے۔ماں: (سکوت توڑتی ہے، آواز میں صدیوں کی تھکن). میرا نام سندھ ہے۔ میری  تاریخ کم از کم 5000 سالوں پر محیط ہے، وہ تاریخ، جو سنگھاسنوں کے زوال، دریاؤں کے بہاؤ، زنجیروں کے بوجھ، اور روحانی علم کی روشنی سے بُنی گئی ہے۔ میرا خطہ علم، تمدن، شاعری، مزاحمت، اور روحانیت کی علامت رہا ہے

ماں (دھیمی آواز میں کہتی ہے ): میں آج تنہا کھڑی ہوں، مگر جھکی نہیں۔ وہ کہنے لگی مجھ پر سب سے پہلا وار 1500 قبلِ مسیح میں کیا گیا، جب آریاؤں نے میری قدیم تہذیب موہنجو دڑو اور ہڑپہ پر حملہ کیا۔ انہی حملوں کے بعد مہنجو دڑو جیسی تہذیب زوال پذیر ہوئی۔، اس کے دریا نے تہذیب کو جنم دیا، اس کے کنارے ہی موہنجو دڑو بسا، جہاں پہلی بار چکّی چلی، اناج پسا، جہاں پہلی بار عورت نے سر پر گھڑا رکھا تو پانی زندگی کا استعارہ بن گیا۔  اس نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا میں وہ دھرتی ہوں جس کے ماتھے پر مہنجو دڑو کی مٹی کا تاج ہے، اور جس کے سینے میں ہڑپہ کی تہذیب کی دھڑکن آج بھی زندہ ہے۔میں ایک ماں ہوں،  زخمی، ہوں مگر سر بلند ہوں، تنہا ہوں، مگر جھکی نہیں۔ وہ اپنی پرانی فائلیں عدالت کے فرش پر بکھیر دیتی ہے، موہنجو دڑو کی مٹی، ہڑپہ کے کھنڈرات، سچل کی شاعری، لطیف کے راگ، کرب کی داستانیں، قربانیوں کی تصویریں. وہ اپنی داستان غم شروع کرتی ہے اور کہتی ہے  میرے خلاف پہلا وار 1500 قبل مسیح میں ہوا، جب آریاؤں نے میرے سینے پر حملہ کیا۔ ان حملوں نے موہنجو دڑو اور ہڑپہ کو مٹی میں دفن کر دیا۔. پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت نے میری سرزمین پر قدم جمائے۔ دارا اوّل، فارس کا بادشاہ، آیا اور میرے بدن کے ٹکڑے کر کے انہیں اپنی سلطنت میں ضم کر گیا۔ 326قبل مسیح، جب سکندرِ اعظم، مقدونیہ کا بادشاہ، اپنے لشکر سمیت میرے بیٹے راجہ پورس سے جنگ لڑنے آیا۔ سندھ کی فضاؤں میں گھوڑوں کی ٹاپیں اور تلواروں کی چمک گونجنے لگی۔ میرے بیٹوں نے مزاحمت کی، مگر تاریخ نے یہ لمحہ بھی میرے سینے پر ثبت کر دیا۔711 عیسوی میں۔ اسلام کے نام پر عربوں کی یلغار ہوئی۔ محمد بن قاسم آیا، اور میرے بیٹے راجہ داہر کو شکست دے کر مجھے خلافتِ بنو امیہ کا حصہ بنا دیا۔ یہ مجھ پر پہلا منظم اسلامی حملہ تھا۔ اس کے بعد 11ویں تا 13ویں صدی تک محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور ان کے بعد کے سلاطین نے میری دھرتی پر حملے کیے، مجھ پر حکومت کی، اور مجھے بار بار تقسیم کیا۔. چنگیز خان کا خوفناک سایہ۔ اگرچہ وہ خود میرے آنگن تک نہیں پہنچا، مگر اس کے منگول حملہ آور میرے شمالی علاقوں تک آئے، میری بستیوں کو خاک میں ملایا، میرے بچوں کو یتیم کیا۔ 1398میں آیا تیمور لنگ۔ اس کے خونریز حملے میرے کئی علاقے تباہ ہوئے، اور دہلی تک کا راستہ میرے زخموں سے گزر کر بنایا گیا۔ پھر  ارغون، ترخان اور مغل خاندان۔ 17ویں تا 19ویں صدی میں میرے اپنے بیٹے، کلہوڑا اور تالپور، آئے۔ انہوں نے مجھے شناخت دی، خود مختاری دی، اور میرے دامن میں ثقافت، ادب اور عزت کی خوشبو بکھیری۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نہ صرف دھرتی تھی، بلکہ ایک زندہ تہذیب تھی خودمختار اور باوقار۔ لیکن پھر آیا 1843…  برطانوی سامراج کا لشکر میری طرف بڑھا۔. سر چارلس نیپئر نے میرے بیٹوں کے ساتھ جنگ چھیڑی۔ ہوشو شیدی جیسے میرے سپوتوں نے “مرسون مرسون، سنڌ نہ ڊيسون” کا نعرہ بلند کیا  یہ وہ صدا تھی جو تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو کر رہ گئی۔ مگر اس کے باوجود، میری آنکھوں میں آج بھی کئی  سوال ہیں. میرے زخموں کے اصل مجرم کون تھے؟ اور میرے سچ کا گواہ کون بنے گا؟ اور میری گواہی صرف تاریخ ہی نہیں، میرے بیٹے بھی دیں گے میں جانتی ہوں… جب چنگیز خان کے گھوڑے تہذیبوں کو روندتے ہوئے میری زمین پر گرجے، میں نے اپنی آنکھوں سے اُس بربادی کو دیکھا  کتنے مزار مٹی ہو گئے، کتنی بستیاں راکھ بن گئیں، مگر میری آنکھوں سے ایک آنسو نہ گرا، کہ میں ماں تھی ، صبر کا پہاڑ۔ جب ہلاکو خان نے کتابوں کو دریاؤں میں بہایا، جب علم کی روشنائی لہو بن کر پانیوں میں گھل گئی، تب بھی… میں نے علم کی شمع کو بجھنے نہ دیا، میرے دامن میں ابھی تک وہ روشنی باقی ہے جو صدیوں کا سفر طے کر چکی ہے۔ میں جانتی ہوں حملہ آوروں کے چہرے بدلتے رہے، کبھی تلوار کے ساتھ، کبھی تقدیر کے نام پر، کبھی مذہب کی آڑ میں، مگر ان کی نیت کبھی نہ بدلی۔.  وقت کا جج حیرت سے اسے تکتا ہے۔ دھرتی ماں (سر اٹھا کر، گونجتی آواز میں): “اب وقت نے جب ایسا موڑ لیا ہے تو میں خود اٹھ کھڑی ہوئی ہوں۔۔۔ اپنا مقدمہ خود لڑنے آئی ہوں!”

تب ماں کے منہ سے نکلا : ‘ہائے رے گھوڑا رے!’
اس نے اسکے بعد  وقت کی عدالت سے سوال کرڈالا: کیا آپ جانتے ہیں یہ فقرہ میری تاریخ میں کہاں سے جُڑا ہوا ہے؟” پھر وہ خود ہی جواب دینے لگتی ہے: “یہ میری صدیوں پر محیط مظلومیت کی فریاد ہے، جو ہر اس لمحے جنم لیتی رہی جب آریا، عرب، مغل یا انگریز گھوڑوں پر سوار ہو کر مجھ پر حملہ آور ہوئے۔ میرے کمزور بچے، بیٹیاں، مائیں گھوڑے کی ٹاپ سنتے ہی خوف سے لرز اٹھتے، کیونکہ گھوڑے پر آنے والا صرف سوار نہیں ہوتا تھا ، وہ ظلم، لوٹ مار، گھر کی بربادی اور عزتوں کی پامالی کا پیامبر ہوتا تھا ۔” اسوقت یہ فقرہ ایک سماجی دھچکے، ایک نئی تہذیبی یلغار کا اعلان ہوتا تھا۔   لیکن آج۔۔۔ یہ فقرہ میں نے کسی باہر والے کے لیے نہیں کہا۔۔۔ !

(خاموشی۔ عدالت میں ہوا کی سرسراہٹ بھی بند ہو گئی ہے)
وہ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے میں وہی ہوں جس کے بطن سے صوفی نکلے میں نے شاہ لطیف، سچل سرمست، شیخ ایاز کو جنم دیا، جنہوں نے محبت کی بولی سکھائی، انسان کو انسان سے جوڑا، مجھے  ماں کا مکمل رتبہ دیا  اور مجھ سے سچائی کی۔ “میں نے راجہ داہر جیسے سپوت کو بھی جنم دیا جس نے محمد بن قاسم کے خلاف مزاحمت کی۔ میری کوکھ سے ہوشو شیدی نے بھی جنم لیا جس نے انگریز کی بندوقوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کہا: “مرسوں مرسوں، سنڌ نہ ڊيسوں!’اس نے کہا میں وہی ہوں جس پر ارغونوں، ترخانوں، مغلوں، کلہوڑوں اور انگریزوں نے  بار بار حملے کیے۔۔۔ مگر ہر بار، دولو، دودو، دلاور، غلام شاہ کلہوڑو جیسے بیٹوں نے ، ہر زنجیر کے جواب میں ایک نئی للکار دی۔” وہ پھر بولی۔۔۔ “پھر انگریز چلے گئے، پاکستان آیا،

مگر میرے مقدر میں پھر بھی غلامی ہی لکھی گئی۔ ایوب خان آیا، اس نے دریاؤں کا سودا کیا۔۔۔ کسی نے پوچھا بھی نہیں، بس اتنا چاہا کہ پنجاب کی فصلیں ہری ہوں،. اور اس کے بدلے میرے سینے پر چشمہ لنک کینال کی تلوار چلا دی گئی۔ یہ غیرقانونی تھا۔۔۔ مگر اقتدار کی لغت میں دلیل نہیں، صرف طاقت جیتتی ہے۔”.  “میری شہہ رگ۔۔۔ میرا سندھو دریا۔۔۔ جو کل تک زندگی تھا، آج پیاس بن چکا ہے۔ وہی دریا، جس کے کنارے میرا بیٹا لطیف گاتا تھا، جس کے سائے میں سچل نے وحدت کا نغمہ چھیڑا تھا، آج وہی دریا دم توڑ رہا ہے،.
اور اس کے ساتھ میری روح بھی۔۔۔ میرے وجود کی نبض اب کمزور پڑنے لگی ہے۔” “میرے ایک بازو کی پٹی پر آباد بدین۔۔۔ جہاں کبھی چاولوں کی خوشبو ہوا میں گنگناتی تھی، آج وہ بازو سیم و تھور کی گینگرین کا شکار ہے۔ ٹھٹھہ۔۔۔ جو دلہن کی مانگ کی طرح سندھو کے کنارے سجا تھا، آج اس کے قدموں سے سمندر چپکے چپکے زمین چرا رہا ہے۔” “میرا دل۔۔۔ حیدرآباد، ٹنڈوالہیار اور پورا ڈویژن  جہاں پانی سے زندگی جڑی تھی، اب وہاں کھارا پانی زمین کے اندر سے ابھرتا ہے۔ اگر یہ کینالیں نہ رکیں، اگر میرا دریا نہ بہا، تو کل میری روح کراچی کے قدموں تک بھی سمندر پہنچا دے گا۔ اب میری کئی انگلیاں سمندر نگل چکا ہے۔۔۔ اور اب اندر ہی اندر سمندر کا زہر میری رگوں میں دوڑنے لگا ہے۔” “بدین، ٹھٹھہ، ۔۔ اور اب تو حیدرآباد ڈویژن  کے بچے بھی مجھ میں سے میٹھا پانی نکالنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔۔۔ اور ستم یہ کہ۔۔۔ میری قسمت کا فیصلہ ایوانِ صدر میں ‘گرین انرجی’ کے نام پر کر دیا گیا ہے۔ میرے اپنے دریا سے چھ کینالیں نکالنے کا حکم صادر ہو چکا ہے۔ میری سینہ زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کمپنیوں کو دے دی گئی ہیں۔۔۔ اور یہ سب کسی دشمن نے نہیں۔۔۔ میرے اپنے بیٹوں نے کیا ہے!” “ مگر آج۔۔۔ میں خاموش نہیں ہوں۔ آج میری رگوں میں لہو کی جگہ فریاد بہہ رہی ہے،میں تم سے سوال کرتی ہوں “ کیا میں وہی ماں نہیں ہوں جس نے تمہیں جنم دیا؟ جس نے تمہارے ہونٹوں کو بولنا سکھایا؟ جس نے بھوک مٹانے کو اناج اگایا؟ جس نے تمہیں نام دیا، پہچان دی، شناخت بخشی؟” جنہیں ووٹ دے کر سندھ کے تاج پہ بٹھایا، جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت سمجھا۔۔۔ آج وہی پیپلز پارٹی، اقتدار کے نشے میں میری رگوں میں دوڑتے خون کو سودے کی میز پر رکھ چکی ہے!”مگر اب بھی ظاہری طور وہ مجھ سے محبت کا دعوا کرتی ہے، ماں کہتی ہے: “آج کے حکمراں اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوچکے ہیں ، اور وہ درپردہ مجھ پر ہلاکو خان اور چنگیز خان کے حملوں سے بھی بدتر سلوک کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے۔۔۔ پہلے حملہ آور باہر سے آتے تھے، آج کے حملہ آور میرے اپنے گھر کے اندر سے نکلے ہیں!” وہ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے: “انہوں نے سب کچھ کیا۔۔۔ مگر میں خاموش رہی۔ میں نے انہیں اقتدار دیا، میں نے انہیں ووٹ دیا، میں نے انہیں مان بخشا۔۔۔ پھر اس نے خود ہی سوال کردیا ؟ ،مگر تم نے بدلے میں مجھے کیا دیا؟ آج میری کوکھ پر سودا کر لیا گیا ہے۔ یہ میں کیسے برداشت کروں؟” وہ کہنے لگی “میں کچھ نہ بولی جب محل بنائے گئے۔۔۔ جب کروڑوں کے پروٹوکول نکلے۔۔۔جب زمینیں بیچی گئیں، جب اسکول بند ہوئے،جب اسپتال کھنڈر بنے۔۔۔تب بھی ماں چپ رہی۔” “مگر آج۔۔۔ جب ایک اقتدار کے نشے میں بدمست بیٹے نے اپنی ماں کو دوسروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔۔۔ تو میں خاموش کیسے رہ سکتی ہوں؟” “اسی لیے۔۔۔.جب انہوں نے میری زمین، میرا دریا، میرا وجودبیچ دیا۔۔۔تب ہی میں نے وقت کی عدالت میں آنا ضروری سمجھا۔۔۔ کیونکہ اب میرا وجود ڈوب رہا ہے، اور میرے ساتھ سب کی زندگی بھی۔” دھرتی ماں نے افسوس سے سر جھکاتے ہوئے کہا: “جن بچوں کو میں نے اپنے سینے سے لگا کر پالا، جنہیں اپنی کوکھ سے جنم دیا، آج وہی میرے وجود کی رگوں میں بہتے خون کا سودا کر آئے ہیں۔ یہ پانی نہیں۔۔۔ یہ میرا خون ہے، میری سانسوں کی ضمانت، میری نسلوں کی بقا، وہی پانی جس نے صدیوں کی فصلوں کو سیراب کیا، جس نے ہوشو شیدی کو میدانِ جنگ میں زندگی بخشی، آج اسی پانی پر قفل لگانے کی پلانگ ہوچکی ہے، ماں نے وقت کی عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “ایک ماں آپکے ذریعہ اپنے ان نافرمان بچوں سے سوال  کر رہی ہے  کہ کیا میں نے اپنے کناروں پر ہزاروں برس تمہیں آباد نہیں رکھا؟ کیا کبھی میں نے تمہیں پیاسا چھوڑا؟ پھر آج کیوں میرے سینے کو چیر کر نہریں نکالی جا رہی ہیں؟ کیوں میرے خون کو دوسروں کے پیالوں میں انڈیلا جا رہا ہے؟”

وہ آگے بڑھتی ہے، جج کی طرف دیکھے بغیر)

“اے وقت کے جج! میری گواہی میری تاریخ ہے۔ میرے گواہ لطیف کی شاعری اور اسکا ساز ہے، سچل کا نغمہ، ہوشو شیدی کی للکار، راجہ داہر کی مزاحمت،جی ایم سید کی فکری استقامت، رسول بخش پلیجو کا عوامی شعور، اور بھٹو کا جمہوری وژن ہیں۔” مگر میرے مجرم؟ وہی ہیں جنہیں میں نے دودھ پلایا تھا۔۔۔ وہی جو آج میری چھاتی نوچ کر میرے وجود کو دوسروں کے تندور کا ایندھن بنا چکے ہیں۔” ماں کی آنکھیں بھر آئیں، وہ بولی: “آج میرے ہوشو شیدی کی روح سکھر کے پلوں کے نیچے بہتی لہروں سے سوال کر رہی ہے، کیا میں نے ‘مرسون مرسون سندھ نہ ڈیسون’ اس لیے کہا تھا کہ اپنی ماں کو بیچ دیا جائے ؟” “اس لیے آج میں خود عدالت میں کھڑی ہوں۔۔۔، میں نے وکیلوں کو آزما لیا، میں نے فریاد کی، التجا کی، دعائیں کیں، مگر کہیں سے کوئی جواب نہ آیا۔ اب میں خود بولوں گی، خود دلیل دوں گی، خود گواہی دوں گی۔۔۔ اور میری پشت پر تاریخ ہے۔ تاریخ جو یہ گواہی دے گی کہ جس نے بھی مجھے بیچا ، وہ کبھی محفوظ نہ رہ سکا۔”“آج سندھ کے شاعر، دانشور، نوجوان ، سب عدالت میں ماں کے حق میں گواہی دینے آئے ہیں۔ سچل کی روح آسمانوں سے چیخ رہی ہے، لطیف کا ساز لرز رہا ہے، ہوشو شیدی قبر سے ہاتھ نکال کر دہاڑ رہا ہے ، کہاں ہو میرے وارث؟ دھرتی ڈوب رہی ہے!“جنہیں ہم نے عزت دی،زمین دی،منصب دیے ، آج وہی بیٹے اقتدار کے نشے میں ماں کو گروی رکھ آئے ہیں۔ سمندر روز آگے بڑھتا جا رہا ہے، زمین روز پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔۔۔اور سب خاموش ہیں ، جیسے یہ دھرتی محض ایک اعداد و شمار کا مسئلہ ہو۔۔۔ کوئی جیتا جاگتا وجود نہیں۔”
(خاموشی کا ایک طویل لمحہ۔ جج کی کرسی خالی سی لگتی ہے)
ماں تھکی ہوئی، زخمی،. مگر پُرعزم۔ اس نے کہا: میں زخمی ہوں، میرے جسم میں دریا کا نمکین پانی زہر بن کر میرے دل و جگر تک پہنچ چکا ہے۔۔۔ مگر میں زندہ ہوں!” “جب تک میرے بیٹے، میری سچائی، میری تاریخ، میرے لطیف کی شاعری باقی ہے، میں زندہ رہوں گی!”

(ماں کی آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے۔ وہ شاید صدیوں پہلے سوکھ چکے ہیں) “آج تم سب سنو، اے وقت کے گواہو! میں دھرتی ماں، تمہیں معاف نہیں کرتی۔ نہ ان سپوتوں کو، جو میرے جسم کو ریاست کی مصلحت پر قربان کرتے رہے، نہ ان دانشوروں کو جنہوں نے میری کہانی کو ‘علاقائیت’ کا نام دے کر دفن کر دیا۔ نہ ان عدالتوں کو جنہوں نے میرے لالوں کی ماں کی فریاد کو ‘ناقابلِ سماعت’ قرار دیا۔

(جج کی طرف دیکھتی ہے، آنکھوں میں بجلی سی چمک)

وہ کہتی ہے اگر سچ بولنا بغاوت ہے، تو میں باغی ہوں۔ اگر تاریخ یاد رکھنا گناہ ہے، تو میں گناہ گار ہوں۔ پر یاد رکھنا یہ دھرتی بولتی رہے گی۔ میری اینٹیں گواہی دیں گی، میرا دریا دہائی دے گا، اور ہر سندھی بچہ، جو سچ بولے گا،

میری طرف سے ایک نیا مقدمہ لے کر اٹھے گا۔

تم کتنا دباؤ گے؟ ایک ماں کی صدا کو؟”

(کمرہ عدالت میں گہرا سکوت چھا جاتا ہے۔)

عدالت خاموش ہے۔ جج کاغذوں میں گم ہے۔ پھر وہ سر اٹھاتا ہے، نگاہیں دھرتی ماں پر جما کر بولتا ہے: سنو! یہ فیصلہ صرف عدالت کا نہیں، تم سب کا بھی ہے۔ کیا تم، جو کبھی اپنی ماں کی  گود میں کھیلا کرتے تھے، اسکی چیخوں پر کان دھرو گے؟ یا اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ گے جنہوں نے اسکو بیچا. یاد رکھو—تاریخ گواہ ہے: جو ماں کو بیچتا ہے، وہ کبھی سلامت نہیں رہتا، نہ دل میں، نہ دھرتی پر۔

فیصلہ محفوظ۔

آج کی سندھ ایک بار پھر تاریخ کی عدالت میں اپنے سچ کی گواہی کے لیے کھڑی ہے—دل زخمی، دھرتی پیاسی، اور دریا کی نبض پر طاقت کا پنجہ۔ سندھو دریا سے چھ نئی کینال نکالنے کا فیصلہ صرف پانی کی تقسیم کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ اس سرزمین کے جیتے جاگتے وجود، اس کی سانسوں، اس کی نسلوں اور اس کی شناخت پر حملہ ہے۔

اسی تناظر میں سندھ کی معروف ادیبہ اور فکری مزاحمت کی علامت، سید نورالہدیٰ شاہ نے اپنی شاعرانہ فریاد کے ذریعے ایک احتجاجی صدا بلند کی، جو محض ایک نظم نہیں بلکہ صدیوں کے دکھ، جدوجہد اور سوگ کا مرکب ہے۔ اس نظم میں سندھ دھرتی کو ایک ماں کے روپ میں وقت کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے، جو سوال اٹھاتی ہے، تاریخ کو گواہ بناتی ہے، اور اپنے ہی بچوں سے انصاف کی طلبگار ہے۔

اسی صدا پر لبیک کہتے ہوئے، امریکا میں مقیم سینئر سندھی صحافی راجا زاہد اختر خانزادہ نے دل کی گہرائیوں سے قلم اٹھایا اور اس درد کو لفظوں کا روپ دیا جو اس دھرتی ماں کے وجود سے اٹھتی ہوئی آہ بن چکا ہے۔ یہ اداریہ اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جہاں دھرتی کا نوحہ، تاریخ کا مقدمہ، اور ماں کی سچائی کی وکالت پیش کی جا رہی ہے۔

یقیناً، یہ ہے نورالہدیٰ شاہ کی نظم ڪارو ڪوٽ (کالا کوٹ) کا منظوم اردو ترجمہ،

(کالا کوٹ) از نورالہدیٰ شاہ

دیکھو!

آج میری دھرتی

(میری تھکی ہاری دھرتی

زخمی، بوجھ تلے دبی ہوئی دھرتی

صدیوں سے ننگے پاؤں چلتی

سانسیں لیتی، مگر ٹوٹی ہوئی)

وقت کی عدالت میں

کالا کوٹ پہن کر

اپنے بقا کا مقدمہ خود لڑ رہی ہے،

خود ہی اپنے لیے وکیل بن کر کھڑی ہے۔

وقت کا جج حیرت سے اسے تکتا ہے،

پوچھتا ہے:

“کیا تم وہی دھرتی ہو؟

جسے زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا،

اور جس کے پاس

اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کے

کوئی گواہ نہ تھے؟”

ہاں، میں وہی دھرتی ہوں!

کبھی کبھی

کچھ سرزمینوں پر ایسا وقت بھی آتا ہے

جب وہ خود اٹھ کھڑی ہوتی ہیں،

کالا کوٹ پہنتی ہیں

اور وقت کی عدالت میں

اپنا مقدمہ خود لڑتی ہیں۔

اور

اس دھرتی کے سب باسی

اس کے گواہ بن جاتے ہیں۔

میں بھی وہی دھرتی ہوں۔

— نورالہدیٰ شاہ


اپنا تبصرہ لکھیں