عمران خان کا کھلا خط: ہمت ہار گئے، بیک چینل ڈیل یا نئی سیاسی حکمت عملی؟ کارکن مایوسی کیوں؟


عمران خان کا کھلا خط: ہمت ہار گئے، بیک چینل ڈیل یا نئی سیاسی حکمت عملی؟ کارکن مایوسی کیوں؟

تجزیہ: راجہ زاہد اختر خانزادہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھا گیا خط ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے۔ حکومتی حلقوں نے اسے “طوفان میں ایک چائے کا کپ” قرار دیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی اسے اپنے مؤقف کی وضاحت کا ذریعہ قرار دے رہی ہے۔

یہ خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عمران خان شدید قانونی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور ان کی جماعت کو سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عمران خان کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ خط نہ صرف فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔ تاہم، حکومت کا مؤقف ہے کہ عمران خان نے اپنی تمام چالیں کھیل کر ضائع کر دی ہیں، اور اب وہ کسی بھی طرح کی حمایت کے خواہاں ہیں، چاہے وہ امریکہ سے ہو یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے۔

اس ضمن میں عمران خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے آرمی چیف کو خط لکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو چکا ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق، عمران خان کی جانب سے فوج کو مخاطب کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ اب براہ راست تصادم کی بجائے مصالحت کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس خط میں عمران خان نے چھ نکات پر زور دیا، جن میں 8 فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم، میڈیا پر قدغن، پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات، سیاسی عدم استحکام، اور معیشت کی زبوں حالی شامل ہیں۔ ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان اب اپنی پالیسی میں نرمی لا رہے ہیں تاکہ وہ دوبارہ سیاسی میدان میں متحرک ہو سکیں۔ پی ٹی آئی کیمپ میں اس بات پر مایوسی ہے کہ ٹرمپ کی جیت سے انہیں جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں اسلیئے وہاں خاموشی ہے ، عمران خان اور پی ٹی آئی کو ٹرمپ سے امید تھی کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں عالمی سطح پر حمایت ملے گی، خاص طور پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر۔ تاہم، اب تک ٹرمپ یا ان کی ٹیم کی طرف سے عمران خان کے حوالے سے کوئی واضح حمایت نہیں کی گئی، نہ ہی کوئی ایگزیکٹو آرڈر جاری ہوا اور نہ ہی کوئی ایسی ٹویٹ سامنے آئی۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور بزنس پارٹنر جیری بیپچ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جو کہ عمران خان کی امیدوں کے برعکس ایک مختلف سمت میں اشارہ کرتا ہے۔ جیری بیپچ نہ صرف ٹرمپ کے بیٹے ٹرمپ جونیئر کے قریبی ساتھی ہیں بلکہ وہ انکے بزنس پارٹنر بھی ہیں اور امریکی کاروباری حلقوں میں بھی ایک مؤثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ کے پی نے جو بڑا انکشاف کیا ہے وہ اس بات کو واضع کررہا ہے کہ کچھ نہ کچھ درمیان میں طے ہوا ہے اگر یو ٹرن نہ لیا جائے انکا کہنا تھا کہ – “اب جو پیچھے ہٹا، اپنی زبان سے پھرے گا”

اسطرح اس صورتحال میں خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈا پور کے حالیہ بیان نے مزید ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کو نتھیا گلی، بنی گالہ یا وزیرِاعلیٰ ہاؤس منتقل کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاکہ مذاکرات آگے بڑھ سکیں۔ ان کے مطابق، “ایک بار 80% اور دوسری بار 99% معاملات طے پا گئے تھے، مگر عمران خان نے پہلے اپنے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔” یہ بیان بھی پی ٹی آئی کے اندر جاری کشمکش کو مزید واضح کرتا ہے۔ ایک طرف کارکنوں کا دباؤ ہے کہ کوئی ڈیل نہ ہو، دوسری طرف پارٹی قیادت کسی نہ کسی طرح بات چیت کے ذریعے سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ علی امین گنڈا پور نے یہ بھی کہا کہ “اب جو پیچھے ہٹا، اپنی زبان سے پھرے گا۔” اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ پارٹی کے اندر بھی ایک فیصلہ کن موڑ آچکا ہے، اور اگر معاملات حل نہ ہوئے تو مزید تقسیم کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔

اسوقت عمران خان کی جماعت نہ صرف سیاسی بلکہ قانونی اور مالی دباؤ کا بھی شکار ہے۔ پی ٹی آئی کے متعدد رہنما یا تو جیل میں ہیں یا عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، جبکہ پارٹی کو مسلسل مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ ایسے میں، آرمی چیف کو خط لکھنے کا فیصلہ پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی حد تک تعلقات بہتر کیے جا سکیں۔ عمران خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سیاست میں مکمل تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب وہ کسی بھی طرح اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا خط دراصل قومی مفاہمت کی ایک کوشش ہے اور اس کا مقصد فوج کے ساتھ تصادم نہیں بلکہ ایک مثبت مکالمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ دوسری جانب  حال ہی میں ایک وڈیو منظر عام پر آئی جسمیں عمران خان کی بہن علیمہ خان اور ایک پی ٹی آئی کی کارکن کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو ئی ہے، جس میں خاتون کارکن جذباتی انداز میں یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ “ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک لیڈر تھا، جس نے پھانسی قبول کر لی مگر ڈیل نہیں کی۔” یہ جملہ نہ صرف عمران خان کے حامیوں کی موجودہ کیفیت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب بھی یاد دلاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو، جو پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم تھے، 1979 میں پھانسی چڑھا دیے گئے۔ ان پر قتل کا الزام لگا، لیکن ان کے حامی اور کئی مؤرخین اسے ایک سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ بھٹو کو کئی مواقع پر مشورہ دیا گیا کہ وہ معافی مانگ کر جان بچا سکتے ہیں، مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ “تاریخ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی، اور میں جھک نہیں سکتا۔”

یہی جذبہ آج تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں نظر آ رہا ہے۔ علیمہ خان کی ویڈیو میں کارکن کی جانب سے اس تاریخی حوالہ دینے کا مطلب واضح ہے: حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنے نظریے پر سودے بازی نہ کرے۔

عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو خط لکھنے کے بعد پارٹی میں جو بےچینی پائی جا رہی ہے، وہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن کسی بھی ممکنہ “ڈیل” کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک اگر لیڈر کو مشکلات کا سامنا ہے تو اسے اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے جیسے کہ بھٹو نے کیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان بھی اسی راستے پر چلنے کو تیار ہیں؟ یا پھر وقت اور حالات انہیں کسی اور سمت لے جائیں گے؟ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں نظریاتی وابستگی اور حقیقت پسندی کے درمیان ہمیشہ ایک کشمکش رہی ہے۔

اس ضمن میں عمران خان کے خط کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف، یہ ان کے سیاسی مؤقف میں تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ اب مفاہمت کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، یہ ممکن ہے کہ یہ خط صرف ایک حکمت عملی ہو تاکہ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی میدان میں دوبارہ جگہ بنائی جا سکے۔ حقیقت جو بھی ہو، ایک بات واضح ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اس وقت ایک غیر یقینی سیاسی صورت حال میں ہیں، جہاں انہیں اپنی بقا کے لیے ہر ممکن آپشن پر غور کرنا ہوگا۔ اگر فوج اس خط کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور کوئی مثبت جواب آتا ہے، تو یہ عمران خان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر اس خط کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جیسا کہ نظر آرہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ پی ٹی آئی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں