وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور، رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے بانی عمران خان کو سیکیورٹی یا صحت کے خدشات کے باعث منتقل کیا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو ایک انٹرویو میں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے وضاحت کی کہ عمران خان کے مقدمات جیل میں ہی چلانے کا فیصلہ ان کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں انسداد دہشت گردی عدالتوں یا ہائی کورٹس کے کمپلیکس میں لایا جائے تو یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے، اور اسی وجہ سے ان کے مقدمات جیل میں چلانے کی مخالفت نہیں کی گئی۔
رانا ثناءاللہ نے مزید کہا کہ اگر سیکیورٹی یا صحت کے مسائل پیدا ہوں تو خصوصی انتظامات کیے جا سکتے ہیں، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
دوسری طرف، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے تصدیق کی کہ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی کمیٹی کی ملاقات جلد متوقع ہے، جو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی بیرون ملک موجودگی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی بانی کے ساتھ انفرادی ملاقاتیں جاری ہیں، اور کمیٹی کا کام بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔
پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا، تاکہ اشتعال انگیز بیانات مذاکراتی عمل کو متاثر نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کمیٹی عمران خان سے ملاقات نہ کر سکے، تو انہیں پھر بھی اجلاس جاری رکھنا چاہیے تاکہ مذاکرات کی رفتار برقرار رہے۔
سیاسی کشیدگی کے مہینوں بعد، حکومت اور پی ٹی آئی نے گزشتہ ماہ مذاکرات شروع کیے تھے، جہاں پی ٹی آئی نے اپنے دو بنیادی مطالبات پیش کیے: تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات۔
دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں، جو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں ہوئے، پی ٹی آئی ٹیم نے پارٹی بانی عمران خان سے مزید ملاقاتوں کی خواہش ظاہر کی تاکہ “چارٹر آف ڈیمانڈز” کو حتمی شکل دی جا سکے۔
تاہم، دونوں فریقوں کے درمیان ڈیڈلاک جاری ہے، اور پی ٹی آئی نے خبردار کیا ہے کہ اگر عدالتی کمیشن تشکیل نہ دیا گیا تو مذاکرات ختم ہو سکتے ہیں۔