اسلام آباد: حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش مسترد کیے جانے کے بعد بات چیت کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
سعودی عرب کے میڈیا ادارے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے، سینیٹر صدیقی نے واضح کیا کہ مذاکرات کا کوئی تعطل یا ناکامی نہیں ہوئی بلکہ یہ عمل اپنے اختتام کو پہنچا اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی تحلیل کر دی گئی ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی نے 28 جنوری کو چوتھے مرحلے کے مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات اور نومبر 2024 کے اسلام آباد احتجاج کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا وعدہ پورا نہیں کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آغاز دسمبر کے آخر میں ہوا تھا۔ دونوں جماعتوں نے 27 دسمبر 2024، 2 جنوری 2025، اور 16 جنوری 2025 کو تین نشستیں منعقد کیں، لیکن چوتھے مرحلے میں پی ٹی آئی نے مذاکرات سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پہلے اس نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے بانی عمران خان نے مذاکرات ختم کرنے کا حکم دیا تھا، بعد میں اس مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذاکرات صرف معطل کیے گئے ہیں۔
جب پی ٹی آئی نے چوتھے سیشن میں شرکت سے انکار کیا تو وزیر اعظم نے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کی، جسے بھی پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب، حکومت نے سابق حکمران جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی قسم کے خفیہ مذاکرات کی خبروں کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کے بیان کے برعکس، ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے تاحال کمیٹیوں کی تحلیل کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔
سینیٹر صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جلد بازی میں مذاکرات کا آغاز کیا اور جلد ہی انہیں ترک کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی تحریری شرائط اعتماد کی بحالی کے لیے تھیں اور حکومت نے ان میں سے کئی پر غور کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم نے عدالتی کمیشن کے مطالبے کو فوراً مسترد نہیں کیا، بلکہ قانونی ماہرین نے مشورہ دیا کہ جو معاملات عدالت میں زیر سماعت ہوں، ان پر کمیشن نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے وکلا سے مشورہ کریں اور اپنی رائے کا اظہار کریں، تاکہ کسی متفقہ حل تک پہنچا جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ اعتماد سازی کے اقدامات پر ایک ورکنگ پیپر تیار کیا تھا، جو کوئی حتمی معاہدہ نہیں تھا بلکہ اس پر مزید تبادلہ خیال ممکن تھا۔ لیکن پی ٹی آئی نے مذاکرات ادھورے چھوڑ دیے۔
پی ٹی آئی کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے، سینیٹر صدیقی نے کہا کہ پارٹی مذاکرات اور معاہدے کرنے کے بجائے احتجاج، تشدد، اور دباؤ کی سیاست پر توجہ دیتی ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد، اور محمود الرشید کی رہائی کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ نام تحریری طور پر نہیں دیے گئے، لیکن زبانی طور پر ان افراد کے لیے مدد مانگی گئی تھی۔