چار دن کی جنگ: کس کی ہوئی جیت اسٹمسن سینٹر امریکہ کی رپورٹ کی روشنی میں بھارت اور پاکستان جنگ کا تجزیہ


چار دن کی جنگ: کس کی ہوئی جیت اسٹمسن سینٹر امریکہ  کی رپورٹ کی روشنی میں بھارت اور پاکستان جنگ کا  تجزیہ

تحریر: راجہ زاہد اختر خنزادہ

امریکہ واشنگٹن میں قائم Stimson Center جنوبی ایشیاء کے سیکیورٹی امور پر ایک معتبر تحقیقی ادارہ ہے جو بین الاقوامی پالیسی، اسلحہ کنٹرول، اور ایٹمی سیکیورٹی جیسے موضوعات پر تحقیق کرتا ہے۔ اس ادارے سے منسلک معروف محقق کرسٹوفر کلاری نے اپنی تازہ رپورٹ “Four Days in May: The India-Pakistan Crisis of 2025” میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی 2025 میں ہونے والی قریبی جنگ کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے اس رپورٹ کے مطابق مئی 2025 کی وہ چار دن کی جنگ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی، صرف ایک سرحدی جھڑپ نہیں تھی بلکہ جدید ٹیکنالوجی، محدود وقت اور شدید نوعیت کی عسکری محاذ آرائی کی ایک زندہ مثال بن گئی۔ اسٹمسن سینٹر کی جاری کردہ رپورٹ “Four Days in May” میں کرسٹوفر کلاری نے اس بحران کو نہایت باریک بینی اور غیر جانب دار تجزیے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس رپورٹ کے تناظر میں ہم اس چار روزہ جنگ کا مکمل جائزہ لے سکتے ہیں، جس میں نہ صرف عسکری کارروائیاں شامل تھیں بلکہ سفارتی چالیں، اطلاعاتی جنگ، عالمی ثالثی اور اندرونی کمزوریاں بھی اس جنگ کا اہم حصہ بنیں۔

بھارت نے 7 مئی کو پہل کی۔ اس کے حملے محدود علاقے تک نہیں رہے، بلکہ کشمیر سے لے کر بہاولپور تک پاکستانی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ BrahMos اور SCALP-EG جیسے جدید کروز میزائلز استعمال ہوئے۔ بھارتی حکام کا دعویٰ تھا کہ یہ حملے “دہشت گرد انفراسٹرکچر” پر کیے گئے، مگر زمینی شواہد ان دعووں کی مکمل تائید نہیں کرتے۔ ان حملوں نے پاکستان کو سخت اسٹریٹجک دباؤ میں ڈال دیا، خصوصاً جب بھارتی ہتھیار چاکلالہ جیسے حساس علاقوں تک پہنچے، جو اسلام آباد کے بالکل قریب واقع ہیں۔

پاکستان نے فوری ردعمل دیا۔ اسی دن بھارت کے چھ جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا، جن میں Rafale اور Mirage شامل تھے۔ عالمی میڈیا رپورٹس میں کم از کم تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق بھی ہوئی، جو پاکستان کی دفاعی صلاحیت خاص طور پر HQ-9 اور PL-15 جیسے چینی نظاموں کی کارکردگی — کا ثبوت تھا۔ پاکستان نے Fatah-I اور Fatah-II جیسے بیلسٹک میزائل اور ترک ڈرونز (Yiha-III، Songar) کا بھی پہلی بار استعمال کیا، لیکن ان کے نتائج محدود رہے، اور زیادہ تر بھارتی دفاعی نظام نے انہیں کامیابی سے ناکام بنا دیا۔

بھارت نے اپنی طرف سے جوابی کارروائی میں مزید شدت دکھائی۔ 9 اور 10 مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے 11 سے زائد عسکری مراکز پر حملے کیے۔ ان حملوں میں پاکستانی ایئر بیسز، کمانڈ سینٹرز اور ریڈار سسٹمز کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی حملے نہ صرف زیادہ منظم تھے بلکہ ان کی تاثیر سیٹلائٹ تصاویر، ملبے اور ویڈیوز سے ثابت بھی ہوئی۔ ان حملوں نے واضح کر دیا کہ بھارت نے جنگ کے آخری مرحلے میں فضائی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت حاصل کر لی تھی۔

جنگ کا زمینی محاذ نسبتاً محدود رہا۔ لائن آف کنٹرول پر شدید گولہ باری ہوئی، دونوں جانب سے توپ خانے، مارٹر اور ٹینکوں کا استعمال ہوا، لیکن نہ کوئی علاقہ فتح ہوا، نہ سرحد بدلی۔ دونوں ممالک نے کوشش کی کہ لڑائی قابو میں رہے اور یہ جنگ مکمل جنگ میں نہ بدلے۔ مگر جانی نقصان زیادہ تر اسی محاذ پر ہوا، اور اس میں پاکستانی دیہاتوں کو زیادہ نقصان پہنچا۔

الیکٹرانک وارفیئر اور اطلاعاتی جنگ بھی اس جھڑپ کا اہم حصہ رہی۔ رپورٹ میں براہ راست سائبر حملے کا ذکر تو نہیں، لیکن “Electromagnetic Environment” اور “سگنل جامنگ” جیسے حربوں کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو فعال طریقے سے استعمال کیا۔ بھارت نے Harop اور دیگر اسرائیلی ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستانی دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، جس میں جزوی کامیابی بھی ملی۔

اس ساری کشمکش کے دوران دونوں جانب سے جھوٹے یا مبالغہ آمیز دعوے بھی سامنے آئے۔ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ بھارتی میزائل امریستسر میں گرے، لیکن کوئی شواہد نہ ملے۔ بھارت نے تمام پاکستانی حملوں کو ناکام قرار دیا، لیکن کچھ اہداف پر جزوی نقصان کی خبریں آئیں۔ پاکستانی میڈیا میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ بھارت کا S-400 نظام تباہ کیا گیا، جو بغیر کسی ثبوت کے تھا۔ دونوں ممالک نے اپنی معلوماتی جنگ میں داخلی طور پر فتح کا تاثر دینے کی کوشش کی، مگر عالمی میڈیا نے پاکستان کے بیانیے کو کم معتبر اور بھارت کے مؤقف کو نسبتاً محتاط قرار دیا۔

اس تمام جھڑپ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی دونوں ممالک کی عسکری ترجیحات اور خارجہ وابستگیوں کا آئینہ بنی۔ پاکستان نے چین سے حاصل کیے گئے J-10 فائٹر، PL-15 میزائل، HQ-9 دفاعی نظام اور ترکی سے لیے گئے ڈرونز پر انحصار کیا۔ بھارت نے روسی S-400، فرانسیسی Rafale، اور اسرائیلی Harop، SCALP-EG، اور Rampage جیسے جدید ہتھیار استعمال کیے۔ تکنیکی تنوع اور کارروائی کی وسعت کے لحاظ سے بھارت کو برتری حاصل رہی۔

جہاں تک عالمی برادری کا تعلق ہے، امریکہ نے ایک بار پھر ثالثی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وائس پریزیڈنٹ وینس اور سیکریٹری روبیو نے دونوں ممالک سے رابطہ کیا اور آخر کار جنگ بندی ممکن بنائی۔ چین، سعودی عرب، اور ایران نے بھی ثالثی کی کوشش کی، لیکن ان کی حیثیت ثانوی رہی۔ امریکہ نے پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالا، جبکہ بھارت کو نسبتاً سفارتی حمایت حاصل رہی۔ جنگ کے بعد بھارت کی عالمی ساکھ مستحکم دکھائی دی، جبکہ پاکستان کو وضاحتیں دینا پڑیں۔

نتیجتاً، اگرچہ پاکستان نے ابتدائی دنوں میں دفاعی سطح پر مزاحمت کی، بھارتی فضائیہ کو نقصان پہنچایا، اور کچھ نئے ہتھیاروں کی آزمائش کی، مگر جنگ کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ بھارت کے حق میں گیا۔ بھارت نے نہ صرف عسکری طور پر اپنا اسٹرائک رینج ظاہر کیا، بلکہ سفارتی محاذ پر بھی خود کو عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگ رکھا۔ پاکستان نے محدود وسائل اور غیر متوازن سفارتی صورتحال میں دفاع کیا، مگر عالمی تاثر اور عسکری نتائج نے بھارت کی تکنیکی اور حکمت عملی کی برتری کو تسلیم کیا۔

یہ جنگ کسی ایک فریق کی مکمل فتح نہیں تھی، مگر یہ واضح طور پر مستقبل کی جنگوں کی نوعیت کا پیش خیمہ تھی۔ جہاں میدانِ جنگ اب صرف سرحد نہیں، بلکہ فضا، ڈیجیٹل میدان، اور عالمی میڈیا بھی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسٹمسن سینٹر کی یہ رپورٹ محض ماضی کا تجزیہ نہیں، بلکہ آنے والے وقت کی ایک پیشگوئی ہے: کہ جنوبی ایشیا میں ایک اور جنگ صرف وقت کی بات ہے — اور اس بار فیصلہ ہتھیاروں سے زیادہ حکمت، اتحاد اور سچائی کریں گے۔


اپنا تبصرہ لکھیں