فیلڈ مارشل عاصم: وردی کا تخت: جمہور کی قبر جب سیاست نے باپ کو جنم دیا اور سچ کی قبر پر بجیں تالیاں !
تحریر: راجا زاہد اختر خانزادہ
جب نیویارک ٹائمز نے مئی 2025 کی اشاعت میں جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا “سب سے طاقتور شخص” قرار دیا، تو یہ محض ایک تجزیہ نہیں تھا بلکہ ایک عالمی اعتراف تھا کہ پاکستان میں اصل حکمرانی اب منتخب ایوانوں سے نہیں، بلکہ ان سایوں سے آتی ہے جو بیرکوں میں پلتے اور پھیلتے ہیں۔
“Pakistan’s Most Powerful Man Steps Out of the Shadows to Confront India”
یہ محض ایک خبر کی سرخی نہیں، بلکہ وہ آئینہ تھی جس نے پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو پوری دنیا کے سامنے برہنہ کر دیا۔ جب طاقت کی یہ پرچھائیاں سامنے آئیں، تو دنیا نے جان لیا کہ یہاں وردی کا سایہ آئین کی روشنی سے زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔ یہ صرف ایک تبصرہ نہیں تھا، بلکہ ایک انتباہ تھا کہ اس ریاست میں اختیار بندوق کے ذریعے نہیں، بلکہ خوف، خاموشی اور فرمانبرداری کے نفسیاتی شکنجے سے حاصل کیا گیا ہے۔ اور جب کسی جنرل کو “جمہوریت کے بھیس میں غیر منتخب بادشاہ” کہا جائے، تو وہ صرف فوجی کردار پر تنقید نہیں بلکہ پارلیمان کی بےبسی، عدلیہ کی مصلحت اور میڈیا کی منافقت پر ایک کھلا طنز ہوتا ہے۔ یہ جملہ اُن پاکستانی سیاستدانوں کے چہروں پر بھی تازیانہ ہے جو آج تالیاں بجا کر ایک نئی آمریت کی تاجپوشی کر رہے ہیں مگر کل، یہی لوگ تاریخ میں جمہوریت کے غدار کہلائیں گے۔ عالمی میڈیا کبھی کبھار آئینہ دکھاتا ہے، اور اس بار یہ آئینہ اتنا شفاف تھا کہ ہم اپنا اصل چہرہ دیکھنے سے گھبرا گئے۔
اب جنابِ جنرل عاصم کا فیلڈ مارشل بننا گویا اُس فلم کا کلائمیکس ہے جس میں ہیرو، ولن، ہدایت کار، اور سینسر بورڈ سب ایک ہی شخص ہو۔ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کی تاریخ خود کو نہیں، بلکہ اپنے زخموں کو دہرا رہی ہے۔ جہاں کبھی آئین کی بالادستی تھی، اب صرف بیج، تمغے اور سلامی ہیں۔ جہاں جمہور کی بولی لگتی ہے، وہاں تخت پر اب وردی ہے مگر اس بار کچھ اور… کچھ نیا ہے وردی میں صرف طاقت نہیں، بلکہ تقدس کا ایسا ہالہ ہے جو اسے خطا سے بالاتر، اور سوال سے بلند بنا چکا ہے۔ واقعی یہ وہ فیلڈ مارشل ہے جو نہ کسی جنگ میں فتح لایا، نہ کوئی سرحد بچائی، بلکہ اُس نے صرف ایک محاذ پر قبضہ کیا ہوا تھا اور وہ تھا “بیانیے کا محاذ” جہاں میڈیا جھک گیا، عدالت ہچکچائی، اور سیاستدانوں نے اپنے ضمیر کو اپنے ہاتھوں ٹوپی پہنائی۔ پاکستان میں پارلیمان کے دروازے اب کسی اسٹیج سے کم نہیں ، جہاں ہر اداکار کے ہاتھ میں اسکرپٹ ہے اور اسکرپٹ جی ایچ کیو کی کسی میز پر لکھا جاتا ہے۔ یہ کیسا فیلڈ مارشل ہے جو میدان جنگ کی بجائے، نیوز رومز میں جنگ لڑتا رہا ؟ جو ٹینک پر نہیں، ٹوئٹر پر چڑھائی کرتا رہا ؟ جس کا سب سے بڑا معرکہ، پاکستان کے کسی جلسے کے بینر پر قبضہ ہوتا ہے؟ یہ عہدہ نہ دیا گیا ہے، نہ جیتا گیا ہے یہ بنوایا گیا ہے، ان سیاستدانوں سے جو اسکے پاس کتھ پتلی بن چکے ہیں اسطرح جیسے کوئی بچے کے تولد کا اعلان کرے کہ “آج ہم نے خود ہی اپنا باپ پیدا کر لیا!”
کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے اداروں سے ٹکرا کر خطا کی مگر شاید یہی خطا تھی جس نے اُسے تاریخ کا سوال بنا دیا۔ جب سب “جی سر” کی مالا جپ رہے تھے،
اس نے “نہیں” کہا۔
اس نے قید قبول کی، مگر سر جھکانے سے انکار کیا۔
آج وہ جیل میں ہے، مگر اُس کا بیانیہ زندہ ہے
کیونکہ بیانیے قید نہیں ہوتے، بیانیے مرثیے نہیں بنتے، بیانیے مزاحمت بن جاتے ہیں۔
عمران خان نے غلطیاں کیں، ہاں، کیں ، مگر وہ خاموش نہ رہا۔ جب ایوانوں میں چاپلوسی گونج رہی تھی، وہ واحد آواز تھی جو انکار کی گونج بنی۔ جب دوسروں نے “جی سر” کہہ کر قلم توڑ دیے، اس نے کمرے کی دیوار پر سچ لکھ دیا۔ آج وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، مگر اُس کا بیانیہ آزاد ہے اور بیانیے پابند نہیں ہوتے وہ عدالتوں سے نہیں، اپنی مزاحمت سے تطہیر پا چکا ہے۔جس دن اُس نے اسٹیبلشمنٹ کے چہرے سے نقاب ہٹایا، اسی دن وہ صرف ایک سیاستدان نہ رہا
وہ ایک علامت بن گیا…
جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت۔ اب وہ قید میں ہو یا قصر میں،
اُسے دیواروں سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اب ایک بیانیہ ہے۔ اور بیانیے… مرثیہ نہیں ہوتے، مزاحمت بن جاتے ہیں
دوسری جانب، آج بھٹو کی وہ جماعت کہاں کھڑی ہے؟
جس نے عوام کو شعور دیا، ظلم سے لڑنا سکھایا، اور ووٹ کو طاقت بنایا تھا آج وہی پارٹی، جسے کبھی مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اقتدار کے دربار میں خاموش کھڑی ہے، اپنے بانی کے نظریات کا جنازہ کندھوں پر اٹھائے۔ بھٹو کی روح آج ضرور بےچین ہوگی، کہ جس کارواں کو میں نے جمہور کی منزل دکھائی تھی، آج وہی کارواں مفاد کے ریگستان میں بھٹک رہا ہے۔ کیا یہی میرے نظریے کے وارث ہیں؟ جنہوں نے ضمیر کو بیچ کر، وردی سے وفا خرید لی؟ جو اپنی زمینوں اور دریاؤں سے وفا نہ کر سکے، وہ قوم سے کیا وفا کریں گے؟
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں میں اب صرف ایک خوشبو ہے اطاعت، سودے بازی، اور خاموشی کی خوشبو۔ سیاستدان قطار میں کھڑے ہیں: کوئی وزارت کے وعدے پر، کوئی رہائی کی قیمت پر، کوئی صرف اس لیے کہ کہیں اگلی باری نہ چھن جائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کل تک کہتے تھے: “ہم اصولوں پر سودا نہیں کرتے!” اور آج… اصول ان کا سب سے قیمتی مال بن چکے ہیں۔
ادھر دیکھیے
عاصم کی وردی کو تخت مل چکا ہے، اور قوم کو راشن کارڈ۔ ایک ہاتھ میں لاٹھی، ایک میں آئین، اور بیچ میں عدلیہ کی خاموشی، میڈیا کی مصلحت، اور عوام کی آنکھوں میں وہ خواب، جو کبھی قائد اعظم نے دکھایا تھا، اب وہی خواب آئی ایس پی آر کی اسکرین پر چل رہا ہے۔وقت کا کمال یہ ہے کہ تخت کو عبرت اور قید کو عظمت میں بدل دیتا ہے۔
یاد رکھیے،
آج جو فیلڈ مارشل “تمغہِ نجات” سجا رہا ہے، کل وہی تاریخ میں “تمغہِ شرمندگی” کہلائے گا۔ آج جو سیاستدان عمران خان کی مخالفت میں اندھے ہو چکے ہیں، وہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ جوتے کو تاج سمجھ بیٹھے ہیں۔ آج جو سیاسی و عسکری گٹھ جوڑ عوامی حقوق کو روند رہا ہے، وہ کل کی تاریخ میں داغ بنے گا۔ آج کی خاموشی، کل کی شورش بنے گی۔ آج کا تمغہ، کل کی ذلت کا لیبل ہوگا۔
کیا خبر کل کی کتابوں میں لکھا جائے: “یہ وہ وقت تھا جب سیاستدانوں نے جمہوریت بیچ دی، اور فوجی بوٹ کو اپنا جھنڈا بنا لیا۔”
اور جب وردی تخت بن جائے،تو زرداری ہو یا شہباز، بلاول ہو یا فضل الرحمان، ایم کیو ایم جعلی ہوکہ حقیقی ہو یا دیگر مفاد پرست سب محض شطرنج کے پیادے بن جاتے ہیں، جن کی چالیں کوئی اور طے کرتا ہے۔ ہم نے ایوب کو دیکھا، ضیاء کو بھگتا، مشرف کو بھلایا اور اب عاصم کو فیلڈ مارشل بنتے دیکھ رہے ہیں۔
مگر افسوس…
یہ سلامی شعور کو نہیں، بےحسی کو دی جا رہی ہے۔ اب شاید تاریخ ہمیں بھی نہ بخشے کہ ہم نے یہ سب دیکھا، سمجھے بھی… اور پھر بھی صرف تالیاں بجائیں۔ وقت کا کمال یہی ہے یہ تخت کو عبرت اور قید کو عظمت میں بدلنے کا فن رکھتا ہے۔ آج جو حکمران اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں، جنہوں نے عمران خان کی مخالفت میں اپنے ہی اصول دفن کر دیے، شاید انہیں اندازہ نہیں کہ کل کی نسلیں انہیں “آئینی بدمعاش” کے نام سے یاد کریں گی وہ لوگ جو جمہوریت کے نعرے لگاتے رہے، مگر فوجی بوٹ کے سائے میں پناہ لیتے رہے۔ زوال کبھی دھماکے سے نہیں آتا وہ دبے پاؤں آتا ہے، جب وردی کو تاج، اور عدالت کو مہریں بنا دیا جائے۔ جب تخت وردی کا ہو، تو سیاستدان، چاہے زرداری ہو یا شہباز، بلاول ہو یا مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور سب محض شطرنج کے پیادے بن جاتے ہیں، جن کی چال جنرل کی انگلی سے لکھی جاتی ہے، اور جن کی خاموشی پر ہم تالیاں بجا کر تاریخ کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دیتے ہیں۔ یہ قوم ہمیشہ فاتح کے سائے میں زندہ رہی ہے مگر سائے کبھی چراغ نہیں ہوتے، نہ روشنی دیتے ہیں، نہ راستہ دکھاتے ہیں۔
کیا خبر… کل کی تاریخ وہی نہ ہو جو اسٹیبلشمنٹ 1947 سے آج تک لکھتی آ رہی ہے؟ اور ہماری نسلیں وہی سچ پڑھیں جو قلم سے نہیں، طاقت سے تحریر ہوا ہو ایک ایسا سچ… جس میں آئین خاموش ہو، ضمیر گونگا ہو،اور صرف وردی بولتی ہو۔!