ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی: قانون، اخلاق، اور عالمی اثرات


Org 2

ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی: قانون، اخلاق، اور عالمی اثرات

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

حال ہی میں وائٹ ہاؤس کی سفید دیواروں کے سائے میں وہ لمحہ ایک علامت تھا جب جرمن چانسلر نے صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ان کے دادا کا جرمن پیدائشی سرٹیفیکیٹ تھمایا، گویا وقت نے ایک آئینہ سامنے رکھ دیا ہو۔ ایک ایسی سند جو ماضی کی گواہی دیتی تھی: “آپ بھی تو مہاجر تھے، جنہوں نے کسی پرائی سرزمین پر اپنے خواب بسائے تھے۔” مگر یہ سند ایک خاموش فریاد بن کر رہ گئی، اور وہ آئینہ جس میں ایک انسان کو اپنی اصل شکل دیکھنی تھی، مگر شاید اس پر غرور کی دھند چھا گئی۔ آج وہی امریکہ جو کل مہاجرین کو بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہتا تھا، اب ان پر دیواریں کھینچ رہا ہے سخت، بےجان، اور بےرحم۔ گذشتہ دنوں ایک تصویر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ ایک وینزویلا کے قیدی کی چیخُ“Como perros! Como perros!”—“جس نے کہا کہ ہمیں  کتوں کی طرح ہانکا جا رہا ہے!” یہ صرف ایک قیدی کی چیخ نہیں تھی، یہ پوری تہذیب کا نوحہ تھا، وہ تہذیب جس نے آزادی کا مجسمہ تو کھڑا کیا مگر دلوں میں زنجیروں کی خواہش چھپا رکھی ہوئی تھی ۔ کیا ہم واقعی اُن قدروں کے وارث ہیں جو انسان کو اس کے خوابوں سمیت قید کر دیتی ہیں؟ جو دیس تو دیتے ہیں، مگر ہم سے اپنی سانس ہی چھین لیتے ہیں؟جیسے  ہی ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار سنبھالا، امریکہ میں امیگریشن سے متعلق پالیسی کا لہجہ بدل گیا۔ اب یہ صرف قانون کا مسئلہ نہیں رہا، اب یہ ریاست کے غرور، اور انسان کے اختیار کی جنگ بن گئی ہے۔ غیرقانونی تارکین کو صرف ملک بدر نہیں کیا جا رہا، بلکہ انہیں ایسی جیلوں میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں انسانیت کی روشنی تک نہیں پہنچتی جہاں CECOT انکے لیئے اب سنگین کوٹھڑیاں ہیں، گوانتانامو کی ویرانیاں ہیں، اور جہاں ساؤتھ سوڈان کی خاموش زمینوں پر خواب دفن کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب ایک بےصدا قتل ہے یادداشتوں کا، نسلوں کے خوابوں کا، اور اس وعدے کا جو ایلس جزیرہ  پر اترنے والے ان ہزاروں مہاجرین سے کبھی امریکہ نے کیا تھا۔ وہ مائیں، وہ بچے، وہ مزدور، جو جنگ، بھوک، اور ظلم سے بھاگ کر امریکہ پہنچے تھے، آج انہیں یہ سرزمین قیدی سمجھتی ہے، خطرہ سمجھتی ہے ۔ آئی سی ایس ( امگریشن)  کے چھاپے ہی نہیں مارتی، بلکہ یہ پورا ملک ایک خفیہ نیٹ ورک میں بدل چکا ہے حتی کہ  آئی آر ایس۔ ایف بی آئی ، ڈی اے ، پوسٹل سروس تک کو ایک ٹیکنالوجی، ریوین، کے ذریعے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ ایک ایک فرد کی نگرانی کی جائے، شناخت کی جائے، اور جہاں کہیں وہ ملے، اسے اٹھا لیا جائے۔ یہ محض پالیسی نہیں، یہ نظم کے نام پر بےنظمی ہے، اور انصاف کے پردے میں خوف کا جال۔ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔ کیونکہ  یہ لوگ دہشتگردی، جرائم، اور ریاستی وسائل کے زیاں کا ذریعہ ہیں۔ مگر اگر کوئی جرم نہیں، کوئی مقدمہ نہیں، اور کوئی عدالت نہیں تو پھر سزا کی بنیاد کیا ہے؟ سی ای سی او ٹی کی سلاخوں کے پیچھے وہ لوگ بھی ہیں جن کے خلاف نہ کوئی فرد جرم ہے، نہ کوئی قانونی دفاع۔ بس وہ مہاجر تارکین وطن ہیں اور آج یہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔

کارپس کی معطلی، عدالتی نگرانی کا خاتمہ، اور ہنگامی اختیارات کا استعمال یہ وہ اقدامات ہیں جو آئین کے چہرے پر سیاہی پھیر رہے ہیں۔ قانون صرف طاقت کا نام نہیں، یہ رحم اور شعور کا محافظ بھی ہوتا ہے۔ جب قانون انصاف کی جگہ انتقام کا روپ دھار لے، تو وہ ریاست کی فتح نہیں، انسانیت کی شکست ہوتی ہے۔

ایلس جزیرہ کی راہ گزر آج  تاریک راہوں میں  آئی ایس چیک پوسٹ میں بدل چکی ہے۔ روزانہ 2,000 گرفتاریوں کی خبریں، اور 100,000 سے زائد قیدیوں کا اندراج یہ اعداد نہیں، یہ اذیت کا حساب ہیں۔ لا پاز سے لے کر لاس اینجلس تک، جب احتجاج ہوا، تو ریاست نے لاٹھی، گیس، اور کرفیو کے ذریعے جواب دیا۔ 318 سے زائد عوامی نمائندے گرفتار کیے گئے، 197 مزید افراد کو صرف اس لیے قید کیا گیا کہ وہ “خاموش نہ رہے”۔ ڈاؤنٹاؤن  لاس اینجلس میں رات کا کرفیو گویا جمہوریت کے منہ پر طمانچہ تھا کہ زبانیں بند کرو، دل سکیڑ لو، اور سوال نہ اٹھاؤ۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہم سب کو رک کر سوچنا ہے: اگر آج مہاجر تاریکن وطن جیل میں ہے، تو کل وہ بھی ہو سکتا ہے جس نے یہ دروازہ بند کیا تھا۔ کیونکہ ظلم جب قانون بن جائے، تو سب ہی قیدی ہوتے ہیں کچھ زنجیروں میں، کچھ ضمیروں  میں۔

یہ ایک لمبی اذیت کی ہے جو صرف امریکہ کے مہاجرین کی نہیں، بلکہ ان تمام قوموں کی ہے جنہوں نے ایک دن “امریکن خواب” خریدا تھا مگر یہ خواب اب نیلام ہو چکا ہے، اور جس کی قیمت صرف آنسو، قید، اور خاموشی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی منطق بڑی صاف ہے—کہ قومی سلامتی کے لیے لازم ہے کہ ویزا قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو “خطرناک مجرم” سمجھا جائے۔ مگر جب ہم ان اعداد و شمار میں جھانکتے ہیں تو ایک اور سچ سامنے آتا ہے: اب تک ایک لاکھ انتالیس ہزار سے زائد تاریکن وطن جنکے پاس کاغذات نہیں وہ افراد ملک بدر کیے جا چکے ہیں، ICE کے حراستی مراکز کی گنجائش میں تیس  فیصد سے زیادہ  لوگ قید ہیں ، اور اب نشانے پر صرف وہ نہیں جو خفیہ طور پر آئے، بلکہ وہ بھی ہیں جو اسکول جاتے ہیں، کلاس لیتے ہیں، یا کسی لائبریری میں مطالعہ کرتے ہوئے خواب دیکھتے ہیں۔ ہونڈوراس سے تعلق رکھنے والا ایک اٹھارہ سالہ طالب علم اسکول کے دروازے سے بلا کر گرفتار کر لیا گیا۔ نہ کوئی عدالت، نہ وکیل، نہ مہلتِ دفاع۔ وہ جو پڑھنے آیا تھا، آج سلاخوں کے پیچھے اپنی کم سن آنکھوں سے جمہوریت کے چہرے کو دیکھ رہا ہے اور شاید پہچان بھی نہ پا رہا ہو۔

لاس ایجلس میں جب رات کا کرفیو نافذ ہوا، اور شہریوں نے اپنی آواز بلند کی، تو ان پر لاٹھیاں برسیں۔ نوجوان لڑکیاں ہتھکڑیوں میں جکڑ دی گئیں۔ عوامی نمائندے سڑکوں سے اٹھا لیے گئے۔ قانون، جسے حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، اب گرفتاریوں کا ہتھیار بن چکا ہے۔ لاس اینجلس کی میئر، کیرن بیس نے اس سب کو “آمرانہ طرز حکمرانی” کہا، اور کیلیفورنیا کے گورنر گیوِن نیوسم نے اسے “جمہوریت پر حملہ” قرار دیا۔ مگر شاید اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کسی فائدے کے لیے ہو رہا ہے؟ Brookings اور Peterson Institute نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ امیگریشن پر قدغن سے امریکی معیشت کو نقصان ہوگا، GDP ممکنہ طور پر 4.2 سے 6.8 فیصد تک میں کمی بھی آ سکتی ہے۔ ایک قوم جو خواب بیچتی تھی، آج انہی خوابوں کو جیلوں میں قید کر کے سمجھ رہی ہے کہ وہ خوشحال ہو جائے گی۔ مگر جس سرزمین پر سانس بیچ دی جائے، وہاں مستقبل پیدا نہیں ہوتے، فقط قبریں بنتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی ادارے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ پالیسیاں نسل پرستانہ ہیں، غیر انسانی ہیں۔ مگر جو اقتدار کو آئینہ دکھاتا ہے، وہی سب سے پہلے کچلا جاتا ہے۔ مظاہروں کی کوریج کرتے ہوئے کئی صحافی عارضی گرفتار اور  زخمی بھی ہوئے، اور کئی میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں  بھی ملیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ کچھ انسانوں نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ وہ لڑکے، وہ مائیں، وہ بچے جو پاکستان، بنگلہ دیش، یمن، وینزویلا، اور صومالیہ جیسے ممالک سے آئے تھے، وہ جو صرف “زندگی” خریدنے آئے تھے، آج ان کے ہاتھ میں زنجیر ہے، ان کا خواب اب ICE کی سفید گاڑی میں بند ہے، ان کی امید کسی نا معلوم ملک کی ویران سرحد پر اُتر چکی ہے۔ وہ جو امریکہ کو محنت سے اپنا وطن بنانا چاہتے تھے، آج وطن سے بے دخل کر دیے گئے ہیں اور ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے۔

ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کوئی عددی حساب نہیں، یہ انسانی المیے کی نئی شکل ہے۔ یہ ایک صدی پرانی امید کا جنازہ ہے ایک ایسا خواب جس میں سرحدیں مٹتی تھیں، اور انسان صرف انسان تھا۔ آج جب کوئی تارکِ وطن خاموش آنکھوں سے جیل کی دیواروں کو دیکھتا ہے، تو ایک دل چیخ اٹھتا ہے: “کیا ہم سب زندہ تھے، یا صرف چلتے پھرتے نمبرز تھے؟”

یہ پالیسیاں صرف امریکہ کی سمت کا سوال نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہیں۔ ترقی پذیر قوموں کے لیے ایک سخت وارننگ ہے کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو قانونی، باعزت، اور محفوظ راستے نہ دیں، تو ایک دن ان کے خواب بھی گمنام ہوائی اڈوں پر اُتر کر ختم ہو جائیں گے۔ اور جو قومیں اپنے بچوں کو زنجیروں کے سائے میں جینے پر مجبور کرتی ہیں، ان کا مستقبل صرف خوف ہی ہوتا ہے۔

تمام قوموں کیلئے  بھی یہ ایک تلخ لمحہ ہے۔ کیا ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسی راہ پر ڈال رہے ہیں جہاں ان کی پہچان ایک کاغذ کے ٹکڑے سے مشروط ہو؟ جہاں ہمت کرنے والے قید کیے جاتے ہیں؟ کیا وہ جو تعلیم، محنت اور خدمت کا خواب لے کر نکلتے ہیں، وہ سزا کے مستحق ہیں؟ کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم ایسا نظام بنائیں جہاں امیگریشن صرف امتیاز نہ ہو بلکہ انصاف بھی ہو؟

مگر سوال صرف پالیسی کا نہیں، فلسفے کا ہے۔ کیا کسی سرزمین پر رہنے کا حق صرف پیدائشی ہونا ہے؟ کیا جنہوں نے اپنے خون سے معیشت سینچی، جنہوں نے راتوں کو صفائی کی، دن کو عمارتیں بنائیں، کیا وہ صرف ایک غلط ویزا یا نامکمل کاغذ کی بنیاد پر بےدخل کیے جا سکتے ہیں؟

شاید ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی زمین کسی کی مستقل میراث نہیں۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جنہوں نے دیواریں بنائیں، وہ خود ایک دن انہی دیواروں میں دفن ہو گئے۔ اور جنہیں نکالا گیا، اُن کے خواب فضاؤں میں باقی رہے، نسلوں کے ذہنوں میں زندہ رہے۔ٹرمپ کا دادا، ایک تارکِ وطن، جرمنی سے بھاگ کر امریکہ آیا تھا—امید کے ساتھ۔ آج کا تارکِ وطن بھی اُسی امید سے آتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک کے ہاتھ میں خالی بیگ تھا، دوسرے کے ہاتھ میں ہتھکڑی۔ شاید یہی وقت ہے کہ ہم انسانوں کو قوموں، مذہبوں، اور سرحدوں کے خول سے نکال کر صرف انسان سمجھنا شروع کریں۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے تو اگلی بار قیدی شاید ہم ہوں۔ اور تب کوئی اور ہمیں “Como perros” کہہ کر یاد کرے گا۔


اپنا تبصرہ لکھیں