ڈیلس کا یومِ تشکر یا یومِ تقسیم؟ ایک مہذب قوم کے ضمیر کے نام نوحہ !
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ڈیلس کی روشن شام تھی، سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا، اور اس کے سائے میں “یومِ تشکر” کی تقریب منعقد ہو رہی تھی ایک ایسا دن، جو بظاہر یکجہتی، شکرگزاری اور وطن سے محبت کا پیغام لے کر آیا تھا۔ میں بھی پاکستان کے پرچم کا بیج لگائے خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھا، آنکھوں میں اُمید لیے کہ شاید آج ہمیں وہ پاکستان دِکھے گا جو ہم سب کا پاکستان ہے، جس میں اختلاف دشمنی نہیں، سوال گستاخی نہیں۔ مگر جب تقاریروں کے بعد اسکرین پر ایک ڈاکومنٹری کا آغاز ہوا تو اسمیں انڈین میڈیا اور کئی کلپس دکھائے گئے یہ ڈاکومنٹری جو بظاہر وطن پرستی کا چولا پہنے ہوئے تھی وہ اشٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی تعصب، شخصی تذلیل، اور ناپسندیدہ اختلاف کو نہ مٹانے کا ایک اعلان جنگ بھی تھی،
ڈاکومنٹری کے آخری لمحات تھے۔ اور جیسے ہی بلوچستان کا ذکر آیا اگلا منظر فوراً الطاف حسین پر آ ٹھہرا ، نہ کوئی تمہید، نہ کوئی تناظر، بس ایک کلپ، ایک جملہ، اور ایک ٹھپہ:
“انڈین ایجنٹ”۔
نہ وضاحت، نہ سیاق، نہ دفاع ، بس فیصلہ صادر ہوا، جیسے عدالت لگا دی گئی ہو۔
میں خاموشی سے دیکھتا رہا، سنتا رہا، مگر دل میں ایک سوال بار بار گونجنے لگا:؟ کیا یہ صرف الطاف حسین تک محدود ہے؟
یا اس فہرست میں اگلا نام کسی اور کا بھی ہے؟ یہ سوال میں نے تقریب کی ایک منتظم غزالہ حبیب سے اسوقت ہی کرڈالا،وہ بھی حیرت زدہ تھیں، نرمی سے بولیں: “یہ ڈاکومنٹریقونصل جنرل صاحب ساتھ لائے ہیں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس میں کیا ہے۔” یہ جملہ سنتے ہی میرا ذہن وہیں نہیں رُکا بلکہ ماضی کے ہر منظر پر بھاگتا چلا گیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ جس طرح ماضی میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگاتی رہی، اور جو ڈرامے وہ کرتی رہی اب وہی سلسلہ شاید اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ آج ایم کیو ایم انکی لیبارٹری میں ٹیسٹنگ وکٹم ہے اور کمزور کو فتح کے بعد طاقتور کا نمبر ہوگا، اسلیئے آج شاید ایک کمزور اور محدود جماعت سے آغاز کیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہی طریقہ پی ٹی آئی کی جانب بڑھنے والا ہے ؟ کل کو یہی ٹھپہ عمران خان پر بھی ضرور لگے گا؟ کیا یہی ڈاکومنٹری، یہی لہجہ، یہی انداز مستقبل میں عمران خان کے لیے نہیں دہرایا جائے گا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے؟
کہ آپ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹیں؟
سیاسی رہنماؤں کی وڈیوز، ان کی حرکات، ان کے کلپ پروپیگنڈا کے کینوس پر رنگین کر کے عوام کے سامنے رکھ دیں؟ یہ کیسا “یومِ شکر” ہے جو مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کی نمائش بن جائے؟
میں سیاست کا کوئی اندھا پیروکار نہیں۔
نہ ایم کیو ایم کی سیاست کا حامی تھا ، نہ ہی الطاف حسین کا مداح، نہ پی ٹی آئی کا ہمدرد رہا ہوں۔ ماضی میں ان سب کی سیاسی حکمتِ عملی پر میں نے ہمیشہ ہی تنقید کی ہے۔ لیکن “ اظہارِ رائے کی آزادی “ شاید میری گھٹی میں پڑی ہے یہ میری تربیت ہے، میرا ضمیر ہے، میرا حق ہے۔ آج جب میں دیکھتا ہوں کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں اسٹیبلشمنٹ کی ہٹ لسٹ پر ہیں، تو مجھے تکلیف ہوتی ماضی میں یہ دونوں اشٹیبلشمنٹ کا دایاں بازو بنے اور انہوں نے اس دوران یہ عمل کرکے یقیننا جمہور کی توہین کی، اور آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے میں یہ دونوں اشٹیبلشمنٹ کے شریک جرم رہے، آج جو سیاستدان اتنے کمزور ہیں وہ عمران خان کا ہی جرم ہے کہ انہوں نے اپنی مقبولیت کو انکی جھولی میں ڈالا اور انہوں نے انکو استعمال کیا اور اسکے بعدانکو آج استعمال کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا ہے پھر سے انہوں نے کمزوروں سے ڈیل کرکے انکو طاقتور بنادیا اور آپکو کھڈے لائین، دونوں جماعتوں کے ساتھ وہی ہوا جو اقتدار میں آجکل شامل جماعتوں سے انہوں نے ماضی میں کیا؟ افسوس انپر بھی ہے جو میثاق جمہوریت کا وعدہ کرکے انہیں بدلنے نکلے تھے، مگر خود آج وہ اس کا حصہ بن گئے ہیں۔
مگر اشٹیبشمینٹ یہ ضرور جان لے کہ اگر آپ دشمن سے جیت چکے ہیں، تو اپنی طاقت کی گونج دشمن کے کانوں میں رکھیں،پلیز اسکو اپنے ہی لوگوں کے دلوں پر نہ برسائیںوطن سے محبت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر اختلاف رائے کو غداری سے تعبیر کیا جائے۔ ریاست اگر صرف تابعداری چاہتی ہے تو پھر سوال کرنے والا ہر شخص ایک دن “ایجنٹ” بن جائے گا۔
یاد رکھیے:
جب حب الوطنی کا مطلب صرف خاموش رہنا بن جائے، تو پھر یہ جشنِ تشکر نہیں بلکہ
جشنِ تعصب بن جاتا ہے۔
اگر آپ وطن سے محبت کے نام پر
اپنے ہی شہریوں کو “غدار” قرار دینا شروع کر دیں،
تو پھر یہ یومِ تشکر نہیں رہتا
یہ یومِ تقسیم بن جاتا ہے۔
مجھے فخر ہے کہ انڈیا نے دوران جنگ مجھے اپنے وطن کا ساتھ دینے اور سچ کا پرچار کرنے پر ہر پلیٹ فارم سے بلاک کیا،
وہ دشمن ہے ایسا کرے اسپر مجھے کوئی افسوس نہیں لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے
جب اپنے ہی لوگ، یہ رویہ اختیار کریں میں ماضی میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ پر تنقید کرتا رہا، وہ بھی وہ مجھے “غدار” کہہ دیتے تھے۔
غدار کہنا آسان ہے، مگر محبت کا سچ بولنا مشکل۔ آج پی ٹی آئی پر بھی اسہی اشٹیبلشمنٹ نے غداری کا ٹھپہ لگادیا ہے، مگر یہ رویہ درست نہیں !
اسہی تقریب میں ایک آرگنائزر کمیونٹی رہنما جوکہ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے صدر بھی ہیں مسڑ امیر مکھانی جنہوں نے اس دوران جذبات سے بھرپور انداز میں وطن کے نعرے لگائے،قونصل جنرل نے بھی ان کے اخلاص اور جذبات کو سراہا، اور خود امیر مکھانی نے اسٹیج پر اپنی تقریر میں یہ اپیل کی کہ
“جس طرح جنرل عاصم منیر نے انڈیا سے سیز فائر کیا، ویسے ہی پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے بھی سیز فائر کریں۔”
یہ ایک حقیقی پاکستانی کی آواز تھی
ایک ایسا پیغام جو ہم آہنگی، اتحاد، اور احترامِ اختلاف پر مبنی تھا۔
مگر افسوس، اسی تقریر کے فوراً بعد
جو ڈاکومنٹری دکھائی گئی، وہ اس تمام جذبے، وحدت اور اخلاص کو روندتی چلی گئی لیکن اسی جذبے کے بعد، ایک ایسی ویڈیو دکھائی گئی جو نفرت کو ہوا دیتی تھی، اختلاف کو جرم اور مخالف کو دشمن بنا کر پیش کرتی تھی۔ جب منتظمین سے میں نے سوال کیا گیا، تو انہوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا ، کہا گیا یہ ڈاکومنٹری قونصل جنرل اپنے ساتھ لائے، اور قونصل جنرل کا مؤقف تھا کہ یہ “پاکستان سے آئی ہے” اور “تمام مشنز کو بھیجی گئی ہے”۔
تو کیا پاکستان کی ریاست کا بیانیہ یہ ہے؟
کہ جو آپ سے اتفاق نہ کرے، وہ دشمن ہو؟
کیا حب الوطنی کا واحد پیمانہ یہ رہ گیا ہے کہ آپ صرف “ہاں” میں سر ہلائیں؟
اور جو سوال کرے، اختلاف کرے، اسے “را” کا ایجنٹ کہہ دیا جائے؟ اگر یہ جیت ہے،
تو یہ جیت دراصل ایک اخلاقی شکست ہے۔
محبت سوال سے نہیں ڈرتی، اختلاف غداری نہیں ہوتا، اور وفاداری زبردستی سے نہیں کی جاتی۔
آج اگر آپ نے “یومِ تشکر” کو “یومِ تعصب” بنا دیا، تو کل کوئی اور آپ کو “غدار” کہے گا
اور پھر آپ کے پاس بھی صفائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
میری گزارش ہے
آئیے، ہم تشکر کو عزت میں بدلیں،
ہم جیت کو تحمل میں ڈھالیں،
اور حب الوطنی کو ایک مخصوص طبقے یا جماعت کا حق نہ بنائیں۔
یہ وطن سب کا ہے اور بیانیہ بھی سب کا ہونا چاہیے۔ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی
اور وہی قوم جس کے لیے آج آپ سچ دبانے نکلے ہیں، کل آپ سے سچ کا حساب ضرور لے گی۔