دو تجزیاتی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین جنوبی مغربی شہر میانیانگ میں ایک بڑے لیزر ایگنائٹڈ فیوژن ریسرچ سینٹر کی تعمیر کر رہا ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن اور توانائی کی پیداوار کے بارے میں تحقیقات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
سیٹلائٹ کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سینٹر میں چار “بازو” ہوں گے جہاں لیزر بیسز رکھی جائیں گی، اور ایک مرکزی تجرباتی بیس ہوگا جس میں ہائیڈروجن آئسوٹوپس کو رکھنے کے لیے ایک ٹارگٹ چیمبر ہوگا، جسے لیزر طاقتور طریقے سے فیوز کریں گے تاکہ توانائی پیدا کی جا سکے۔ امریکی تحقیقی ادارے CNA کارپ کے محقق ڈیکر ایویلیتھ نے اس ڈھانچے کو امریکہ کے نیشنل اگنیشن فیسلٹی (NIF) سے مشابہت دی، جس نے 2022 میں “سائنسی بریک ایون” حاصل کیا یعنی لیزر سے زیادہ توانائی پیدا کی۔
ایویلیتھ، جو جیمز مارٹن سینٹر فار نان پھیلاؤ اسٹڈیز (CNS) کے تجزیہ کاروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ چینی سینٹر کا تجرباتی بیس NIF کے مقابلے میں تقریباً 50٪ بڑا ہے۔
یہ ترقی پہلے نہیں رپورٹ کی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی سہولتیں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن میں بہتری لا سکتی ہیں اور بغیر کسی جسمانی ٹیسٹ کے ان ڈیزائنز کو مزید بہتر بنانے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، جو ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام والے ممالک کے لیے اہم ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر سوالات کو متعلقہ اتھارٹی کے حوالے کر دیا، جبکہ چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے تبصرہ فراہم نہیں کیا۔ امریکہ کے دفترِ قومی انٹیلی جنس نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
یہ فیوژن تحقیقاتی سینٹر، جسے لیزر فیوژن میجر ڈیوائس لیبارٹری کہا جاتا ہے، نومبر 2020 میں میانیانگ کی سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا، جس میں ایک صاف ستھری زمین کا پلاٹ نظر آیا تھا جو 2010 سے نئی تحقیقاتی یا پیداوار کی جگہوں کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔
فیوژن فیول کو مشتعل کرنا محققین کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ فیوژن ردعمل کس طرح کام کرتا ہے اور کیسے یہ کسی دن ہائیڈروجن جیسے کائنات کے سب سے زیادہ وافر وسائل سے صاف توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، لیزر فیوژن تحقیق محققین کو دھماکے کے ردعمل کا جائزہ لینے کی اجازت دیتی ہے، جو تجرباتی دھماکوں کی ضرورت کو ختم کر دیتی ہے، جو جامع نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی کے تحت ممنوع ہیں، جس پر چین اور امریکہ دونوں دستخط کنندہ ہیں۔
چند ممالک جنہوں نے ایٹمی دھماکے کم کیے ہیں، جیسے چین، ان کے لیے ایسے تجربات کم قدر رکھتے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجربات ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت اور ان کے اعتبار کو برقرار رکھنے میں اہم ہیں۔
چین کا لیزر فیوژن تحقیقاتی سینٹر سائنسی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے گا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک کے بھی اسی طرح کے تحقیقاتی مراکز ہونے کی وجہ سے کوئی فوری خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔