چین نے منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چینی سامان پر مزید 50 فیصد محصول عائد کرنے کی دھمکی کو “بلیک میل” قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی۔ یہ دھمکی ٹرمپ کی جانب سے بیجنگ سے جوابی محصولات کے منصوبے واپس لینے کے مطالبے کے بعد سامنے آئی ہے۔
اگر دونوں فریق اپنی ضد پر قائم رہے اور ٹرمپ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا رہے تو امریکہ میں درآمد کیے جانے والے چینی سامان پر مجموعی طور پر نئے محصولات اس سال 104 فیصد تک بڑھ سکتے ہیں۔ اس سے جاری تجارتی جنگ میں نمایاں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے پہلے ہی وبا کے بعد مارکیٹ میں سب سے بڑا نقصان ہوا ہے۔
چین کی وزارت تجارت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف محصولات میں اضافے کی دھمکی ایک غلطی پر دوسری غلطی ہے، جس سے ایک بار پھر امریکی فریق کی بلیک میل کرنے والی فطرت عیاں ہوتی ہے۔” وزارت نے مزید خبردار کیا کہ “اگر امریکہ اپنی مرضی پر اصرار کرتا ہے تو چین آخر تک لڑے گا۔”
ٹرمپ نے کہا کہ اگر بیجنگ نے گزشتہ ہفتے امریکی مصنوعات پر عائد کردہ 34 فیصد محصولات واپس نہ لیے تو وہ بدھ کے روز چین سے امریکی درآمدات پر اضافی 50 فیصد ڈیوٹی عائد کریں گے۔ چین کے یہ محصولات ٹرمپ کی جانب سے پہلے اعلان کردہ 34 فیصد “باہمی” ڈیوٹیوں کے جواب میں تھے۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے عائد کردہ محصولات کے بعد، جس میں اس سال پہلے عائد کردہ 20 فیصد کے علاوہ چینی سامان پر 34 فیصد محصول لگایا گیا تھا، چینی سامان پر اوسط امریکی محصول پہلے ہی 76 فیصد تک بڑھنے والا ہے۔
ماہرین اقتصادیات نے تیزی سے اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو مزید شرحوں میں اضافے سے کتنا فائدہ ہوگا۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے سینئر ماہر اقتصادیات شو تیانچن نے تبصرہ کیا کہ “چونکہ چین کو پہلے ہی 60 فیصد سے زیادہ کی محصول کی شرح کا سامنا ہے، اس لیے اس میں مزید 50 فیصد یا 500 فیصد اضافہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔” انہوں نے چین کی جانب سے ممکنہ ردعمل تجویز کیے، جن میں امریکی زرعی خریداری روکنا، امریکی محصولات کے برابر محصولات لگانا اور مختلف کیمیائی عناصر پر اپنی برآمدی کنٹرول کو بڑھانا شامل ہے۔