نامیبیا میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے دوران بد نظمی کے باعث حالات کشیدہ ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے ووٹنگ کے عمل میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔
الیکٹورل کمیشن آف نامیبیا (ECN) نے جمعہ کو اعلان کیا کہ پولنگ اسٹیشنز، جو دو دن پہلے بند ہو جانے تھے، ہفتہ کی رات تک کھلے رہیں گے۔ یہ توسیع “لوجسٹک ناکامیوں” کے باعث کی گئی تھی، جن میں بیلٹ پیپرز کی کمی اور الیکٹرانک ٹیبلٹس کا زیادہ گرمی کی وجہ سے اوور ہیٹ ہونا شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے شہریوں کو گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا۔
اس تاخیر نے ووٹرز میں خاص طور پر نوجوانوں میں غصے کو جنم دیا ہے، جو ملک میں مواقع کی کمی سے مایوس ہیں۔ اگرچہ ورلڈ بینک کے مطابق نامیبیا کو ایک اوپر-درمیانہ آمدنی والے ملک کے طور پر درجہ دیا گیا ہے، لیکن یہاں معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے، اور نوجوان حکومت کی طرف سے ان مسائل کے حل میں ناکامی پر آواز اٹھا رہے ہیں۔
نامیبیا کی حکومتی جماعت ساؤتھ ویسٹ افریقہ پیپلز آرگنائزیشن (SWAPO) نے 1990 میں ملک کی آزادی کے بعد سے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔ SWAPO نے نامیبیا کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن اب اس کی حکمرانی کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف، جس کی قیادت صدارتی امیدوار نانڈی-ندائیٹواہ کر رہے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہو گئی ہے، جو SWAPO کی دہائیوں پر محیط حکمرانی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ بہت سے مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا SWAPO اسی طرح دیگر جنوبی افریقی ملکوں کی طرح شکست سے دوچار ہو جائے گا جہاں آزادی کے بعد حکمرانی کرنے والی جماعتوں کو اس سال کے انتخابات میں ووٹرز نے مسترد کیا ہے۔
نامیبیا میں انتخابی مسائل اس وقت سامنے آ رہے ہیں جب ہمسایہ ملک موزمبیق میں بھی سیاسی افراتفری پائی جا رہی ہے، جہاں فری لیمو پارٹی پر اکتوبر کے انتخابات میں ووٹ چرانے کے الزامات عائد ہیں، جس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی اور احتجاج جاری ہیں۔
جیسے جیسے نامیبیا کا انتخابی عمل جاری ہے، ملک کا مستقبل غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے، اور حکومتی جماعت اور حزب اختلاف دونوں اپنی مایوس ووٹرز کی حمایت جیتنے کے لیے سرگرم ہیں۔