محمود عباس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر کے لیے جانشین کیوں منتخب کیا؟


محمود عباس، جو فلسطینی اتھارٹی (PA) کے موجودہ صدر ہیں، نے اپنے جانشین کے طور پر راوی فتوح کو منتخب کیا ہے۔ یہ فیصلہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے تناظر میں سامنے آیا ہے، جہاں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 44,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں دیگر زخمی اور بھوک کا شکار ہوئے ہیں۔ عباس، جو 89 سال کے ہیں اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے بھی سربراہ ہیں، نے اس بحران کے دوران اپنے قیادت پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا کیا ہے۔

عباس، جو 2005 سے PA کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے پہلے کبھی اپنے جانشین کا انتخاب نہیں کیا تھا، اس لیے یہ ایک اہم سیاسی اقدام ہے۔ اس فیصلے سے فلسطینی قیادت کے مستقبل پر سوالات اٹھتے ہیں، خاص طور پر ان کی صحت کی خرابی کے پیش نظر۔ عباس، جن کی مدت 2009 میں ختم ہو چکی تھی، نے خوف کے باعث انتخابات سے گریز کیا کہ ان کی جماعت فتح، حماس کے مقابلے میں شکست نہ کھا جائے۔

فلسطینی اتھارٹی کیا ہے؟

PA کو 1993 کے اوسلو معاہدوں کے تحت فلسطینیوں کے لیے ایک عبوری حکومت کے طور پر قائم کیا گیا تھا، تاکہ وہ اسرائیلی قبضے میں غزہ اور مغربی کنارے کے کچھ حصوں، بشمول مشرقی یروشلم میں خدمات فراہم کر سکے۔ PA کا مقصد تعلیم، سیکیورٹی، پانی اور بجلی جیسے بنیادی وسائل فراہم کرنا تھا۔ تاہم، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اوسلو معاہدوں کی کوششوں کے باوجود، اسرائیل کی مغربی کنارے میں آبادکاری اور سیاسی چیلنجوں نے ان مقاصد کی تکمیل کو مشکل بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے PA محدود اختیار کے ساتھ رہ گیا ہے۔

عباس نے اب جانشین کیوں منتخب کیا؟

عباس کا راوی فتوح کو جانشین کے طور پر منتخب کرنا بنیادی طور پر بین الاقوامی دباؤ، خاص طور پر امریکہ اور خلیجی ممالک کی طرف سے ہے۔ سعودی عرب، خاص طور پر، دو ریاستی حل کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور عباس سے جانشین منتخب کرنے کی شرط رکھی ہے۔ فتوح، جو فلسطینی قانون ساز اسمبلی کے سابق اسپیکر اور فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں، کو ذاتی سیاسی عزائم رکھنے والا نہیں سمجھا جاتا۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عبوری رہنما کے طور پر کام کریں گے اور نئے انتخابات ہونے کے بعد یہ عہدہ کسی اور کو دے دیں گے۔

یہ اقدام PA کے اندرونی مسائل کو بھی حل کرتا ہے، جو اوسلو معاہدوں کے تحت اسرائیل کی جانب سے فنڈز کی روک تھام کے باعث مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکہ اور خلیجی ممالک استحکام کے لیے عباس پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ اگر وہ کسی وجہ سے عہدہ چھوڑ دیں تو حکومت کا تسلسل قائم رہے۔

کیا عباس فلسطینی سیاست میں اب بھی طاقتور ہیں؟

اگرچہ عباس PA کے صدر کے لیے جانشین منتخب کرنے والے ہیں، لیکن ان کا اثر و رسوخ ابھی بھی مضبوط ہے، خاص طور پر PLO اور فتح میں۔ PLO کے سربراہ کے طور پر، جو PA سے زیادہ طاقتور ہے، عباس کے پاس فلسطینیوں کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنے والا ایک وسیع سیاسی فریم ورک ہے۔ انہوں نے فتح میں اپنے جانشین محمود العلول کو منتخب کیا ہے، جو عباس کے بعد پارٹی کے سربراہ بننے کے لیے تیار ہیں۔

مزید برآں، عباس نے اپنے قریبی ساتھی حسین الشیخ کو PLO کے سربراہ کے طور پر کامیاب ہونے کے لیے تیار کر لیا ہے، تاکہ اس کی سیاسی دائرہ اختیار میں ان کی سیاسی جماعت کے اہم عہدوں پر قبضہ رہے۔ اگرچہ PA کی صدارت کم اہم سمجھی جاتی ہے، کیونکہ یہ بیشتر روزمرہ کی انتظامی خدمات فراہم کرتی ہے، عباس کی PLO اور فتح پر گرفت فلسطینی سیاست میں ان کے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرتی ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں