وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں حالیہ “کرو یا مرو” احتجاج کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں، جن میں احتجاج کے دوران ہونے والے واقعات، اہم کرداروں اور ہونے والے نقصانات کی تفصیلات شامل ہیں۔
عدالتی احکامات اور حکومتی مذاکرات
21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو دارالحکومت میں امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی۔ غیر ملکی معززین کی موجودگی کے پیش نظر، حکومت نے پی ٹی آئی سے احتجاج ملتوی کرنے کی درخواست کی، لیکن پارٹی کے اصرار پر سنگجانی کو احتجاجی مقام کے طور پر نامزد کیا گیا۔ تاہم، پی ٹی آئی کے مظاہرین عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈ زون کی طرف بڑھ گئے۔
پرتشدد حکمت عملی اور کلیدی کردار
وزارت نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی نے 1500 تربیت یافتہ افراد پر مشتمل گروپ کے ذریعے تشدد کو منظم کیا، جن میں غیر قانونی افغان شہری بھی شامل تھے، اور یہ گروپ مراد سعید کی قیادت میں کام کر رہا تھا۔ ان افراد نے ہتھیاروں، اسٹیل کی گوپیاں، کیلوں سے جڑے ڈنڈوں اور آنسو گیس کے شیلز کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں (LEAs) پر حملے کیے۔
وزارت کے مطابق، ان پرتشدد سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل استعمال کیے گئے۔
جانی نقصان اور زخمی
اس افراتفری میں تین رینجرز اہلکار اور ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ 232 LEA اہلکار زخمی ہوئے۔ مظاہرین نے گاڑیاں نذر آتش کیں، املاک کو نقصان پہنچایا، اور شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کیا۔
جعلی پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا مہم
وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی نے جھوٹے ویڈیوز اور AI سے تیار کردہ مواد کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے کے لیے مربوط سوشل میڈیا مہم کا استعمال کیا۔
مالی اور مادی نقصانات
پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے کروڑوں روپے کے مالی نقصانات ہوئے، جبکہ 11 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ معیشت کو بالواسطہ طور پر 192 ارب روپے یومیہ کا نقصان ہوا۔
قومی یکجہتی اور نتیجہ
وزارت داخلہ نے بیان دیا کہ پاکستان کے عوام، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے شہریوں نے انتہا پسندانہ سیاسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا۔