افغانستان میں بین الاقوامی امداد کی دہشت گرد تنظیموں کے لیے ممکنہ غلط استعمال پر تشویش

افغانستان میں بین الاقوامی امداد کی دہشت گرد تنظیموں کے لیے ممکنہ غلط استعمال پر تشویش


2021 میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کو فراہم کی جانے والی بین الاقوامی امداد ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس میں امدادی فنڈز کے دہشت گرد تنظیموں کو منتقل ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ متعدد رپورٹس، بشمول خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان کی بحالی (SIGAR) کی تشخیص، سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی نے افغانستان کو بہت زیادہ مالی امداد فراہم کی، جس میں امریکہ سب سے بڑا ڈونر رہا۔ اقوام متحدہ نے اگست 2021 میں تقریباً 2.6 ارب ڈالر کی امداد عالمی تنظیموں کے ذریعے مختص کی۔

پریشان کن رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں کی امداد کا تقریباً 50% حصہ خودکش بمباروں کے خاندانوں تک پہنچ رہا ہے۔ یہ فنڈز طالبان کے زیر کنٹرول مرکزی بینک کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں تک پہنچتے ہیں، جن میں حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ شامل ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ ان بڑھتی ہوئی تشویشات کے باوجود 43 ملین ڈالر سے 88 ملین ڈالر تک کی امداد بھیج رہی ہے، جبکہ اقوام متحدہ نے افغانستان کو 20.71 ارب ڈالر سے زائد امداد فراہم کی ہے۔ ایک خاص تشویش یہ ہے کہ امریکی فوجی سازوسامان، جس کی قیمت تقریباً 7 ارب ڈالر ہے، طالبان کے ہاتھوں میں آ کر دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ حالیہ دہشت گرد حملوں کا تعلق پاکستان میں ان اسلحہ جات سے جوڑا جا رہا ہے، جس سے علاقائی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

امریکی پالیسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ امدادی حکمت عملیوں کا جامع جائزہ لے کر یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ فنڈز کا غلط استعمال نہ ہو اور بین الاقوامی امداد دہشت گردی کی مالی معاونت کا سبب نہ بنے۔


اپنا تبصرہ لکھیں