شمالی کوریا کی مداخلت کے بعد پالیسی میں تبدیلی
صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو روسی علاقے میں امریکی میزائل استعمال کرنے کی پابندیوں کو نرم کر دیا ہے، جس کے تحت یوکرین کو روس کے گہرے حصوں میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ATACMS میزائل فائر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ روس کی جانب سے شمالی کوریا کے فوجیوں کو تنازعے میں شامل کرنے، خاص طور پر کرسک کے علاقے میں، اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ انتخابی فتح کے بعد کیا گیا ہے، جنہوں نے یوکرین کے لیے امریکی حمایت پر تنقید کی تھی۔ اس تبدیلی کا مقصد یوکرین کے دفاع کو مضبوط بنانا اور مستقبل میں ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت امریکی امداد میں کمی کو روکنا ہے۔
ٹرمپ کی انتخابی فتح کا امریکی حکمت عملی پر اثر
بائیڈن پہلے یوکرین کی درخواستوں کے جواب میں ATACMS میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریز کر رہے تھے، کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ اس سے تصادم میں اضافے کا خطرہ ہو سکتا ہے اور نیٹو کو جوہری طاقت رکھنے والے روس کے ساتھ براہ راست تصادم میں دھکیل سکتا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کی انتخابی فتح اور یوکرین کے لیے امریکی فوجی امداد کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات نے اس بات کی اہمیت کو بڑھا دیا کہ یوکرین کی حمایت کے لیے ایک مضبوط پالیسی کو جلدی حتمی شکل دی جائے۔ یہ پالیسی تبدیلی ایک طرح سے “ٹرمپ سے بچاؤ” کی تدبیر سمجھی جا رہی ہے تاکہ اگر آئندہ انتظامیہ امداد میں کمی کرے تو یوکرین کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔
شمالی کوریا کے فوجیوں کا کرسک میں ورود
روس میں شمالی کوریا کی فوجوں کی آمد، خاص طور پر کرسک کے علاقے میں، جہاں یوکرین کی فوج اگست سے علاقے پر قابض ہے، ایک اہم eskalation کی علامت ہے۔ امریکی حکام اب اسے ایک براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے یوکرین کے میزائل استعمال پر پابندیوں کو نرم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس پالیسی میں تبدیلی کو روس اور شمالی کوریا کی کوششوں کو روکنے کے لیے دیکھا جا رہا ہے تاکہ وہ یوکرین کے زیر قبضہ کرسک کے علاقے کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔
نئی پالیسی کے تحت پہلا حملہ
پالیسی میں تبدیلی کے بعد، یوکرین نے اپنی پہلی طویل فاصلے کی میزائل حملہ کیا، جس میں امریکی سپلائی کردہ ATACMS میزائل کا استعمال کیا گیا اور یہ حملہ روسی علاقے میں 110 کلومیٹر اندر ایک روسی اسلحہ ڈپو پر کیا گیا۔ اس حملے کے ساتھ ساتھ برطانوی اسٹورم شیڈو میزائل کے ذریعے ایک اور حملہ بھی کیا گیا، جو امریکی پالیسی میں تبدیلی اور یوکرین کے روسی فوجی انفراسٹرکچر کو براہ راست نشانہ بنانے کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کو ظاہر کرتا ہے۔
پالیسی کی تبدیلی کے وسیع اثرات
اگرچہ بائیڈن کے اس فیصلے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ جنگ کے رخ کو بدلنے کے لیے دیر ہو چکا ہو۔ تاہم امید کی جا رہی ہے کہ یہ یوکرین کو اہم علاقوں جیسے کرسک میں دفاعی پوزیشن قائم رکھنے میں مدد فراہم کرے گا، جہاں روسی-شمالی کوریا فورسز یوکرینی افواج کو باہر دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جن میں اینٹی پرسنل مائنز کے استعمال کی منظوری اور امریکی دفاعی ٹھیکیداروں کو یوکرین میں امریکی ہتھیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کی اجازت دینا شامل ہے۔
حکمت عملی کا مقصد اور کانگریسی ردعمل
بائیڈن انتظامیہ کا یہ فیصلہ خاص طور پر کرسک علاقے پر مرکوز نظر آتا ہے تاکہ روس کو یوکرین کی فوج کو وہاں سے نکالنے سے روکا جا سکے اور روس و شمالی کوریا کو ایک سخت پیغام دیا جا سکے۔ اگرچہ مزید eskalation کا خدشہ ہے، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی یوکرین کی دفاعی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے اور روس کے اضافی علاقے حاصل کرنے کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ کانگریسی معاونین کا ماننا ہے کہ نئی پالیسی خاص طور پر کرسک کے علاقے کے لیے ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک ہدف شدہ ردعمل ہے نہ کہ یوکرین کے لیے طویل فاصلے کے میزائل استعمال کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی جامع تبدیلی۔