امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے جج نے ایک ایسے شخص کی سزائے موت کو صرف دو گھنٹے پہلے روک دیا جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’شیکن بیبی سنڈروم‘ کے تحت اپنی ہی بیٹی کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا سامنا تھا۔
رابرٹ رابرسن کو سنہ 2003 میں اپنی بیٹی نکی کرٹس کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ نکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت تشدد کے باعث پہنچنے والے زخموں کے باعث ہوئی۔
دو برس کی نکی 31 جنوری 2002 کو اپنے والد کے بازوؤں میں ہسپتال بے ہوشی کی حالت میں پہنچی تھیں اور اسی حالت میں ہی دم توڑ گئی۔
ڈاکٹروں کے مطابق نکی کی موت کی وجہ دماغ کی ایک سنگین چوٹ ’شیکن بے بی سنڈروم‘ (Shaken baby syndrome) بنی، جو دو سال سے کم عمر کے بچے کو زبردستی بہت زیادہ ہلانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس سے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
جیوری کو یقین ہو گیا کہ رابرسن ہی اس کے ذمہ دار تھے کیونکہ نکی کی موت کی تحقیقات کرنے والے برائن وارٹن نے مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا تھا کہ رابرٹ رابرسن نے اپنی بیٹی کی موت پر کوئی خاص ردعمل یا جذبات کا اظہار نہیں کیا۔
رابرسن اور ان کے وکلا کی جانب سے ہمیشہ سے یہی مؤقف اختیار کیا گیا کہ نکی کی موت نمونیا کے باعث ہوئی۔
امریکی میڈیا کے مطابق جج کی جانب سے ان کی سزائے موت کو روکنے کے بعد رابرسن نے حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے حمایتیوں کا شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ رابرسن کو جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق چھ بجے سزائے موت دی جانی تھی لیکن صرف ڈیڑھ گھنٹہ قبل ٹریوس کاؤنٹی کے ایک جج نے عارضی طور پر سٹے دے دیا تاکہ اگلے ہفتے رابرسن عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروا سکیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب ٹیکساس کی پارلیمان نے بدھ کو رابرسن کی عدالت میں پیشی کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی اور اس امید کا اظہار کیا تھا کہ حکام کو انھیں 21 اکتوبر کو ایک عدالتی سماعت میں بھیجنا پڑے گا۔
ایک تنظیم جس میں ٹیکساس کے 86 ارکانِ پارلیمان، درجنوں طبی سائنسی ماہرین، وکلا، مصنف جان گرشم اور ایسے رپبلکنز بھی شامل ہیں، جو سزائے موت کے حق میں ہیں، انھوں نے بھی رابرسن کو معاف کرنے کی درخواست کی۔
اس تنظیم کا ماننا ہے کہ یہ سزا سائنس کے فرسودہ عقائد کی بنیاد پر دی گئی اور حکام کو ’شیکن بیبی سنڈروم‘ کے حوالے سے کچھ خاص تفصیلات موجود نہیں تھی۔
مصنف جان گرشم نے ستمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’رابرٹ کے کیس میں کوئی جرم ہوا ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم اسی بنا پر ٹیکساس میں ایک شخص کو قتل کرنے جا رہے ہیں۔‘
رابرسن کے وکلا بھی کہہ چکے ہیں کہ ان میں آٹزم کی تشخیص نکی کی موت سے پہلے نہیں ہوئی تھی اور اسی وجہ سے پولیس اور میڈیکل سٹاف کے سامنے انھوں نے اپنے جذبات نہیں دکھائے تھے۔