شام کے صدر بشار الاسد کی خونریز کریک ڈاؤن کی کہانی

شام کے صدر بشار الاسد کی خونریز کریک ڈاؤن کی کہانی


شام کے صدر بشار الاسد نے عوامی جمہوریت کی تحریک کو طاقت سے کچل دیا، جس کے نتیجے میں ایک خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ 2011 میں اس تحریک کی ابتدا ہوئی تھی، جس میں عوام نے ان کے اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ بشار الاسد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے روس، ایران اور حزب اللہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ ان کی قیادت میں، شام ایک طویل خانہ جنگی کا شکار ہو گیا، جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔

جب باغیوں نے اپنے حملوں کا آغاز کیا تو اسد کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا۔ نومبر 2024 کے آخر میں، باغیوں نے ایک کے بعد ایک شہر پر قبضہ کیا اور آخرکار دمشق میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد شام کی حکومتی افواج کی جانب سے مزید مزاحمت کی کوششوں کے باوجود، اسد کے اقتدار کا خاتمہ قریب آ گیا۔

شام میں بشار الاسد کی حکمرانی نے ان کی تصویر کو دنیا بھر میں ایک “استحکام کے محافظ” کے طور پر پیش کیا، مگر داخلی سطح پر ان کی حکومت نے عوام پر ظلم و ستم کی ایک طویل تاریخ رکھی۔ اس دوران شامی عوام نے کئی انتخابات میں حصہ لیا، جو صرف حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہوئے۔ ان انتخابات کے بارے میں مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید اعتراضات کیے۔

2011 میں عرب اسپرنگ کے دوران جب شامی عوام نے تبدیلی کے لیے آواز اٹھائی تو اسد نے ایک خونریز کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ اس دوران سینکڑوں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے اور لاکھوں شامی اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ گزین بن گئے۔

بشار الاسد کی حکمت عملی اور جنگی کارروائیوں کے باوجود، یہ واضح ہو رہا ہے کہ ان کی حکمرانی کا خاتمہ قریب آ چکا ہے۔ باغیوں نے دمشق سمیت اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور عالمی سطح پر اس کے اثرات ابھرنے لگے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں