بنگلہ دیش نے 2009 کی بنگلہ دیش رائفلز (بی ڈی آر) بغاوت کی نئی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جو متاثرین کے خاندانوں کی جانب سے انصاف کے مطالبات کے بعد کی گئی ہے۔ اس بغاوت نے 74 افراد کی جان لی تھی، جن میں فوجی اہلکار اور شہری شامل تھے، اور یہ واقعہ پیلکھانا ہیڈکوارٹرز میں 25 سے 26 فروری 2009 کے دوران پیش آیا تھا۔
یہ واقعہ بنگلہ دیش کی فوجی تاریخ کا ایک سنگین بحران تھا۔ بی ڈی آر ہیڈکوارٹرز میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں، جن میں فوجی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شامل تھے۔
بغاوت کے بعد، پیرا ملٹری فورس میں بڑی تبدیلیاں آئیں، جن میں بی ڈی آر کا نام بدل کر بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) رکھ دیا گیا۔ متاثرہ خاندان اب اس فورس کا سابقہ نام دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ساتھ ہی ایک جامع تحقیقات کی بھی درخواست کر رہے ہیں۔
نئی تحقیق کا مقصد اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے، بشمول بغاوت کی وجوہات اور اس کے بعد کے حالات۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق، ہلاک ہونے والوں کے خاندان اب تک اس واقعے سے متعلق جواب اور انصاف کی تلاش میں ہیں۔
اس بحران کے دوران، اس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو اپنے ابتدائی چیلنجز کا سامنا تھا، اور اس وقت کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے علاقائی سفارتی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس واقعہ کے بعد بنگلہ دیش کے سیکورٹی ڈھانچے اور سول ملٹری تعلقات میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ بی ڈی آر سے بی جی بی میں تبدیلی صرف ایک نام کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ یہ سرحدی سیکورٹی فورس کے مکمل تنظیم نو کی نمائندگی کرتی تھی۔
متاثرین کے خاندان کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بارے میں بہت سے سوالات ابھی تک حل نہیں ہو پائے ہیں، اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ اس واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں۔ نئی تحقیق اس واقعے کے ایسے پہلوؤں کا جائزہ لے گی جو پہلے نظر انداز کیے گئے تھے اور متاثرہ خاندانوں کی طویل مدتی تشویشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرے گی۔