خیبر میں انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، پولیس اہلکار شہید

خیبر میں انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، پولیس اہلکار شہید


خیبر: خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں پیر کے روز انسداد پولیو ویکسینیشن ٹیم پر مسلح حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔

یہ واقعہ بکرآباد کے علاقے میں اس وقت پیش آیا جب ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کا پہلا دن تھا۔ حملے میں پولیو ورکرز تو محفوظ رہے، لیکن ان کی حفاظت پر مامور پولیس کانسٹیبل موقع پر ہی شہید ہوگیا۔

مقامی پولیس افسر ضرمت خان کے مطابق، “دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی” جب یہ اہلکار ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت کے لیے جا رہا تھا۔ حملہ آور موقع سے فرار ہوگئے، جس کے بعد علاقے میں ویکسینیشن مہم معطل کردی گئی۔

شہید پولیس اہلکار کی شناخت کانسٹیبل عبد الخالق کے نام سے ہوئی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے کر ناکہ بندی کر دی گئی تاکہ ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے باوجود علاقے میں انسداد پولیو مہم جاری رہے گی۔ تاہم، محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ بکرآباد کے علاقے میں ویکسینیشن ٹیم کو واپس بلا لیا گیا ہے اور وہاں مہم ملتوی کر دی گئی ہے۔

تاحال کسی بھی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن خیبر پختونخوا، جو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ہے، شدت پسند سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس سال پولیو کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں سات روزہ ملک گیر مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں خیبر ضلع میں 208,000 بچوں کو ویکسین دینے کے لیے 945 پولیو ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو مہم جاری ہے، تاہم کوئٹہ میں مہم کا آغاز کل سے ہوگا۔

مہم کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک سے اس موذی مرض کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قومی مہم لاکھوں بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔

پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد ممالک ہیں جہاں پولیو ابھی تک ختم نہیں ہوسکا اور ویکسینیشن ٹیموں پر حملے بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں کئی بار پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 77 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ 2023 میں صرف 6 کیسز سامنے آئے تھے۔ بلوچستان، جو افغانستان کے قریب واقع ہے، 2024 میں سب سے زیادہ پولیو کیسز کا شکار رہا، حالانکہ یہ ملک کا کم آبادی والا صوبہ ہے۔

پولیو کو چند قطرے ویکسین پلا کر آسانی سے روکا جا سکتا ہے، لیکن ملک میں جاری سیکیورٹی مسائل، غلط فہمیاں اور والدین کی جانب سے ویکسینیشن سے انکار جیسے چیلنجز مہم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

گزشتہ برسوں میں حملوں کا زیادہ تر نشانہ پولیو ٹیموں کے ساتھ جانے والے پولیس اہلکار بنتے رہے ہیں، جو گھر گھر جا کر ویکسینیشن کا عمل مکمل کرتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد۔

2024 ملک کے لیے ایک خونی سال رہا، جس میں مختلف حملوں میں 1,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند گروہ پاکستانی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، جبکہ کابل کی حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔

نومبر میں بلوچستان میں ایک اسکول کے قریب ویکسینیشن ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم سات افراد، بشمول پانچ بچے، جاں بحق ہوگئے تھے۔


اپنا تبصرہ لکھیں