نیا عالمی بیانیہ: ٹرمپ، پاکستان اور بھارت کی بدلتی سفارتکاری


نیا عالمی بیانیہ: ٹرمپ، پاکستان اور بھارت کی بدلتی سفارتکاری

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

دنیا کے سیاسی افق پر ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے، جہاں طاقت کے توازن میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ دنیا اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں سفارتکاری فقط خوش بیانی کا کھیل نہیں رہی یہ ایک شطرنج ہے، جہاں ہر چال اگلی صدی کے منظرنامے کو متعین کر رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے نکلنے والے جملے محض الفاظ نہیں، عالمی نظام کی دھڑکنوں میں نئی دھار پیدا کرنے والے پیغام بن چکے ہیں  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ بیانات اور اقدامات نے جہاں دنیا بھر میں وہیں جنوبی ایشیا میں خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے نئے باب کھول دیے ہیں۔ گذشتہ دنوں ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے کو “ہزار سال پرانا” قرار دے کر ایک تاریخی تناظر میں پیش کیا، حالانکہ پاکستان 1947 میں وجود میں آیا۔ اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں اسکے باوجود بھی  وہ مسلسل اسپر بولتے نظر آئےاسطرح  کشمیر کو ہزار سالہ تنازعہ قرار دے کر ٹرمپ نے گویا تاریخ کی رگوں میں کوئی پرانا زہر دوبارہ تازہ کر دیا ہے ایسا زہر جو صرف زخم یاد نہیں دلاتا، نئی سرحدیں کھینچنے کا خدشہ بھی پیدا کرتا ہے۔ ابتدا میں اسے محض ایک “ٹرمپزم” سمجھا گیا اور ایک بے ساختہ بات، لیکن جب یہی ذکر آٹھ بار مختلف تقریبات میں دہرا یا گیا، تو یہ بات صاف ہو گئی کہ یہ الجھن نہیں، منصوبہ بند بیانیہ ہے۔ ایک ایسا بیانیہ، جس نے پاکستان اور بھارت جیسے ازلی حریفوں کو امریکی سفارتی میزان میں برابری پر لا کھڑا کیا ہے، انکے اس بیان نے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی جہتیں پیدا کیں ہیں  ٹرمپ نے نہ صرف بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر قرار دیا بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی برابری کی بنیاد پر تعلقات کی بات کی، جو بھارت کے لیے واقعہ ایک حیران کن امر ہے  یہیی برابری، بھارت کے لیے سب سے بڑی حیرت تھی اور شاید سب سے بڑی توہین بھی۔ ایک طرف وہ امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر، دوسری طرف ٹرمپ کا بار بار پاکستان کا نام لینا، کشمیر کو عالمی مسئلہ کہنا، اور ثالثی کی پیشکش کرنا، بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک تلخ پیغام ہے۔ وہ امریکہ جس کی دوستی پر دہائیوں سے انحصار کیا جا رہا تھا، اب وہ تجارت کے اصولوں پر تعلقات کو تول رہا ہے۔ ٹرمپ کا نظریہ صاف ہے: “مجھے ڈیل کرنی آتی ہے”۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ایپل کے سی ای او کو بھارت میں پیداوار پر ٹیرف کی دھمکی دیتے ہیں، تو یہ صرف ٹیکنالوجی کی جنگ نہیں، بھارت پر واضح پیغام بھی ہے کہ تعلقات اب ہمدردی سے نہیں بلکہ مفاد سے جڑیں گے۔

ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ، جہاں انہوں نے عرب ممالک کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کیے، اسرائیل کا دورہ نہ کرنا، اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کی برطرفی یہ تمام عوامل ایک بڑی خارجہ پالیسی تبدیلی کی علامت ہیں۔ والٹز کی برطرفی، جو اسرائیلی حکومت سے غیر مجاز روابط اور حساس معلومات کی مبینہ افشا پر ہوئی، دراصل ٹرمپ کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کی ایک نئی اور سخت تشریح ہے۔ یہ واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ امریکہ اپنی پرانی اسٹریٹجک ترجیحات پر نظرِثانی کر رہا ہے، اور ایک زیادہ خودمختار، تجارتی مفاد پر مبنی خارجہ پالیسی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس نئی عالمی ترتیب میں پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرے، اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے براہِ راست، حقیقت پسندانہ اور فائدہ مند سفارتی راہیں تلاش کرے کیونکہ اب یہ تبدیلی نہ صرف امریکہ کو، بلکہ پوری دنیا کو نئی لکیروں میں تقسیم کر رہی ہے

دوسری جانب ٹرمپ اپنی چالیں کھیل رہے ہیں۔ وہ بھارت اور اسرائیل جیسے روایتی اتحادیوں پر بھی تنقید سے گریز نہیں کرتے ٹرمپ کی دنیا میں صرف وہی رشتے قائم رہتے ہیں جن میں تجارتی مفاد ہو۔ حال ہی میں ٹرمپ خاندان نے پاکستان میں معدنیات اور کرپٹو کرنسی کے شعبوں میں باقاعدہ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں، جن میں ان کی کمپنی “ورلڈ لبرٹی فنانشل” (WLF) بھی شامل ہے، جس میں ٹرمپ خاندان کا 60 فیصد حصہ ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد پاکستان میں بلاک چین ٹیکنالوجی، مستحکم کرنسیوں اور ڈیجیٹل مالیاتی نظام کو فروغ دینا ہے۔ ڈیلس سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے قریبی ساتھی جنٹری بیچ نے پاکستان کا دورہ کر کے ان معاہدوں کو عملی شکل دی، جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی روابط کا مظہر ہے۔  مودی حکومت اس وقت شدید داخلی و خارجی دباؤ کا شکار ہے۔ نہ عوام مطمئن، نہ میڈیا خاموش، نہ کانگریس راضی۔ پہلگام حملے کے بعد مودی سرکار نے جو عجلت میں فیصلے کیے. بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام، پھر یک طرفہ جارحیت وہ سب ایک ایسے سفارتی طوفان کا پیش خیمہ بنے جس نے خود بھارت کی پوزیشن کو کمزور کر دیا۔ بھارت میں اس وقت صدر ٹرمپ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے، خاص طور پر ان کے کشمیر سے متعلق بیانات اور پاکستان کو برابری کی سطح پر لانے پر۔ کانگریس مودی سے سوال کر رہی ہے، عوام سچ جاننا چاہتے ہیں، اور میڈیا وہ سوالات اٹھا رہا ہے جنہیں کل تک دبایا جاتا تھا مودی حکومت، جو پہلے عالمی برادری میں اپنی پوزیشن کو مضبوط سمجھتی تھی، اب تنقید کی زد میں ہے۔ عالمی حمایت کی کمی  یہ سب ایک ایسے بھنور کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں بھارت کی سفارتی کشتی بری طرح ہل چکی ہے۔اسلیئے انہوں نے اپنے وفود دنیا کے کئی ملکوں میں روانہ کیئے ہیں جبکہ عالمی برادری بھی اس تمام صورتحال کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے۔ بھارت کے اندر بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی، انسانی حقوق کی پامالی، اور اقلیتوں سے امتیازی سلوک نے دنیا کے سامنے ایک مختلف چہرہ آشکار کیا ہے۔ یہ وقت پاکستان کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کرے اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو مضبوط کرے۔

صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی جو “ڈیل میکنگ” کے اصول پر کھڑی ہے نے ایک نئی سیاسی حقیقت جنم دی ہے، جہاں اب امریکہ بھارت سے غیر مشروط محبت کا دعوے دار نہیں رہا، بلکہ پاکستان کو بھی اسی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ جانتے ہیں، دشمن جب خود کو شیر سمجھے، تو اسے آئینہ دکھانا ہی کافی ہوتا ہے۔ آج بھارت اسی آئینے میں خود کو زخمی، الجھا ہوا اور تنہا محسوس کر رہا ہے۔ یہ منظرنامہ صرف سفارتکاری کا نہیں، ایٹمی توازن کا بھی ہے۔ جنوبی ایشیا میں کسی بھی غلط قدم کا مطلب تباہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اب احتیاط سے چل رہا ہے۔ اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اس لمحے کو کس قدر تدبر اور حکمت سے نبھاتا ہے۔

اب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان کے وفود دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے جارہے ہیں: کہ ہم امن چاہتے ہیں، اور بھارت کی تنگ نظری خطے کے استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کے لیے ایک نیا سورج طلوع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بیانیے کی جنگ ہے، جہاں کامیابی دلیل، حکمت، اخلاق اور شفافیت سے مشروط ہے۔ یہ جنگ توپوں سے نہیں جیتی جا سکتی—یہ ذہنوں اور دلوں کو قائل کرنے کی جنگ ہے۔ اگر پاکستان نے یہ موقع ضائع نہ کیا، تو یہ محض سفارتی کامیابی نہیں، بلکہ تاریخ کا وہ باب بنے گا جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی


اپنا تبصرہ لکھیں