اور وطن سے جُڑے دلوں کا قافلہ اور تقریب کا احوال


ڈیلس میں سو ڈگری کی دوپہر اور وطن سے جُڑے دلوں کا قافلہ اور تقریب کا احوال !

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

کہتے ہیں دیارِ غیر میں اگر کبھی وطن کی یاد شدت سے دل پر دستک دے، تو وہ لمحہ صرف یاد نہیں ہوتا، ایک زندہ تجربہ بن جاتا ہے۔ 15 جون 2025، ڈیلس ٹیکساس کی ایسی ہی ایک سو ڈگری گرم دوپہر تھی، جب گرمی سورج سے باتیں کر رہا تھا، سورج آگ برسا رہا تھا، اور ڈیلس کی سڑکیں تپتی دھوپ میں سانس روکے ہوئے تھیں مگر پاکستانی کمیونٹی کا جذبہ اس سے کہیں بلند نظر آیا۔ وہ لوگ جن کے جسم ٹیکساس میں تھے، مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ انکے کیلیئے یہ سو ڈگری کی دوپہر محض موسم کا حال تھی، لیکن انکے جذبے کا درجہ حرارت بھی اس سے کم نہ تھا۔ کیونک ایک روز قبل ہی پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واشنگٹن آمد ہوئی، ڈیلس فورٹ ورتھ میں پاکستانی کمیونٹی نے “اسٹینڈ وتھ پاکستان” کے بینر تلے جو خیرمقدمی سرگرمیاں ترتیب دیں، وہ محض رسم نہیں تھیں  وہ ایک زندہ، متحرک اور قومی شعور سے سرشار ایک بیانیہ تھا۔

تقریب کا پہلا باب ایک دلکش نظارے سے کھلا۔ فیلڈ مارشل کو خوش آمدید کہنے اور وطن کی عسکری کامیابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والا ایک خصوصی سائبر ایڈورٹائزنگ ٹرک پورے دن شہر بھر میں گشت کرتا رہا۔ اور ساتھ تھا وئ کاروان جبکہ ٹرک پر آویزاں اسکرینیں، نغمے، ویڈیوز، اور قومی پرچموں سے سجی گاڑیوں کا قافلہ شہریوں کے لیے جہاں حیرت کا باعث بنا ، وہان یہ منظر عقیدت اور محبت کا منظر بھی بن گیا۔ یہ ڈیجیٹل کارواں گویا ایک رواں دواں ترانہ تھا جو شہر کے چپے چپے میں پاکستان کی فتح کی گونج پھیلا رہا تھا۔ ٹرک پر فیلڈ مارشل کے لیے خوش آمدیدی پیغامات، حالیہ جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں پر خراجِ تحسین، اور پاکستان کے پرچموں کے ساتھ ویڈیوز آویزاں تھیں۔ یہ ٹرک صرف ایک چلتا پھرتا اسکرین نہیں تھا یہ وطن سے محبت کا موبائل ایک مظاہرہ تھا۔ لوگ رک کر دیکھتے، رہے اور تصویریں لیتے، رہے اور دل ہی دل میں وطن کو سلام  بھی کرتے رہے۔

شام کو جب سورج کے شولے کچھ مدھم پڑے، تو ایک شاندار عشائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا، تھا امیر مکھانی کی جانب سے جس میں ممتاز مہمانانِ گرامی شامل تھے پاکستانی قونصل جنرل آفتاب چوہدری، ریاستی اسمبلی کی رکن ٹری میزا، اور درجنوں نمایاں کمیونٹی لیڈران۔ اس موقع پر موجود تھے اور جو کچھ کہا گیا، وہ صرف بیانات نہ تھے، وہ وقت کی چھپی ہوئی ترجمانی تھی۔

اس موقع ہر جب قونصل جنرل آفتاب چوہدری بولے، تو ان کے الفاظ میں فقط سفارتی لہجہ نہیں تھا وہ لہجہ ایک سپاہی کے فخر کا تھا، جو اپنے جرنیل کے وقار پر سینہ تان کر کھڑا تھا۔  قونصل جنرل آفتاب چوہدری نے خطاب میں کہا: “فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جنگ کے دوران جس پیشہ ورانہ قیادت کا مظاہرہ کیا، اس نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے ۔ کمیونٹی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ٹیکساس بھی آئیں اور اپنی اس محبت کا جواب خود دیکھیں جو یہاں ان کے لیے دھڑک رہا ہے۔” آفتاب چوہدری  نے امریکہ اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی،

اور جب ریاستی اسمبلی کی رکن ٹیری میزا نے کہا کہ وہ پاکستانی، کشمیری اور سکھ برادری سے خود کو بہت جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں، تو لگا جیسے ٹیکساس کی دھرتی پر بھی ہمارے دکھ سنے جا رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں آج اس لمحے کا حصہہوں جہاں پاکستان کے فیلڈ مارشل کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میںپاکستانی، کشمیری اور سکھ کمیونٹی کے قریب ہوں، اور مودی جیسے رہنما اور انکے پیروکار مجھے اسی لیے پسند نہیں کرتے کہ میں اقلیتوں کے ہمیشہ ساتھ کھڑی ہوتی ہوں۔ کیونکہ یہ سب انصاف، امن اور مساوات کے علمبردار ہیں۔”

اس ضمن میں انہوں نے یہاں ڈیلس میں انڈیا کی 75ویں یومِ آزادی کے موقع پر ایک متعصبانہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں تقریب سے ایک روز قبل جھوٹ بول کر دور رکھا گیا، مگر جو ڈاکیومنٹری وہاں پیش کی گئی وہ اقلیتوں کی آواز سے خالی تھی۔ ٹری میزا نے مودی اور ٹرمپ کو “انتہاپسندانہ سوچ کے نمائندے” قرار دیا اور کہا کہ ایسی قیادتیں نفرت بانٹتی ہیں، جبکہ دنیا کو آج امن اور تنوع کی اشد ضرورت ہے۔ڈیلس کی تقریب میں سید فیاض حسن، امیر مکھانی، حفیظ خان، غزالہ حبیب، سہیل پیرزادہ، اور افتخار درپن سمیت کئی کمیونٹی رہنماؤں نے بھی اظہار خیال کیا۔ وہاں جذبات بولے مقررین نے فیلڈ مارشل کو “قوم کا محافظ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ عاصم منیر نے بغیر شور کے وہ جنگ جیتی جسے دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف دشمن کو روکا بلکہ خطے میں امن کی راہ ہموار کی۔ تقریب کے اختتام پر جو نعرے گونجے، وہ صرف زبانوں سے نہیں، دلوں سے بھی نکلے“پاکستان زندہ باد!” “فیلڈ مارشل عاصم منیر زندہ باد!” یہ نعرے کمیونٹی کے جذبات کا اظہار تھے، لیکن اس سے بڑھ کر کہ یہ دن، یہ دھوپ، یہ کارواں، شاید کل تاریخ کے صفحات میں ایک سطر بن جائے۔ مگر ہم جو اس لمحے کے گواہ تھے، جانتے ہیں کہ یہ سطر سنہری روشنائی سے لکھی گئی تھی اور یہ وہ دن تھا جب محبت، وفاداری اور دیارِ غیر کے دِل نے مل کر وطن کی عزت کو سجدہ کیا۔

یہ استقبال، یہ چراغ، یہ نعرے—سب گواہ ہیں کہ وطن صرف جغرافیہ نہیں، یہ دل کا دوسرا نام ہے ! آنےطوالے کمیونٹی کے افراد نے کہا کہب ہم جہاں بھی ہوں، وطن ہمارے دل میں ہے، اور وہ سپہ سالار جو اسے سلامت رکھے، وہ ہمارے فخر  اور سر کا تاج ہے !


اپنا تبصرہ لکھیں