وزیراعظم عمران خان نے چھوٹی ترقیاتی اسیکموں کی ادائیگی میں اراکین پارلیمان کی مؤثر شمولیت کے لیے 30 ارب روپے کا پائیدار ترقی کے اہداف (ای ڈی جیز) کے حصول کا پروگرام (ایس اے پی) کابینہ ڈویژن سے پارلیمانی امور ڈویژن منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وزیراعظم نے یہ فیصلہ اسد عمر کی سربراہی میں وزارت منصوبہ بندی کی درخواست پر کیا تا کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرامز کے افعال اور انتظامات کو سامنے لایا جاسکے، درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا تھاکہ ترقیاتی اسیکموں کے لیے کابینہ ڈویژن گزشتہ حکومتوں کا غلط انتخاب تھا۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ہر سال 30 ارب روپے کی ادائیگیوں کو وزارت منصوبہ بندی کے اختیار میں دینے کے بجائے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ایس اے پی کو پارلیمانی امور ڈویژن کو منتقل کیا جانا چاہیئے جس کے نئے سربراہ سینیٹر بابر اعوان ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ وزیراعظم نے عملے، عہدوں اور بجٹ سمیت ایس اے پی کی پارلیمانی امور ڈویژن کو باضابطہ منتقلی کے لیے کابینہ ڈویژن کو فوری سمری وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
خیال رہے کہ اس وقت 30 ارب روپے کا ایس اے پی کابینہ ڈویژن کے ماتحت اور براہِ راست وزیراعظم کے کنٹرول میں ہے۔
اس میں سے زیادہ تر پارٹی کے اراکین پارلیمان کی تجویز پر اب تک ملک کے مختلف حلقوں میں کمیونٹی کے لیے شروع کی جانے والے اسکیموں کے لیے 22 ارب روپے ادائیگی کا اختیار دیا گیا ہے۔
قبل ازیں دفتر وزیراعظم 15 رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعے اراکین پارلیمان کے حلقوں میں ایس اے پی فنڈز کے استعمال کی نگرانی کرتا تھا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزارت منصوبہ بندی ترقیاتی پروگرام کی نگران ہونے کی حیثیت سے ایس اے پی کو براہِ راست اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی تھی لیکن کابینہ اور پارلیمنٹ کے کچھ اراکین نے فنڈز پر وزارت کے کنٹرول کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔
اس میں ایک موقف یہ تھا کہ محکمہ پارلیمانی امور اراکین پارلیمان سے رابطوں کا ذمہ دار ہوتا ہے لہٰذا عوام کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے منتخب نمائندوں کے حوالے سے یہ بہتر انتخاب ہوگا۔
خیال رہے کہ پائیدار ترقی پروگرام کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی وزارت منصوبہ بندی کے اختیار سے لے کر وزارت خزانہ کے حوالے کیا جاچکا ہے۔
چنانچہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اراکین اپنے حلقوں میں ووٹرز کو کارکردگی دکھانے کے لیے ناکافی ترقیاتی سرگرمیوں کی شکایت کرتے رہے ہیں۔
حالانکہ وفاقی حکومت کے 7 کھرب ایک ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام میں سے 5 کھرب 26 ارب ادا کرنے کے لیے مختص کیے گئے تھے اس کے باوجود اس رقم کا تقریباً نصف استعمال نہیں ہوا۔