افغانستان میں طالبان کے 2 حملوں میں کم از کم 12 افغان پولیس اہلکار اور حکومت کے حامی عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔
صوبائی پولیس کے ترجمان خلیل اسیر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کی رات جنگجوؤں نے شمال مشرقی صوبہ تخار میں پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت کے قریب متعدد چوکیوں پر حملہ کرکے کم از کم 6 فوجیوں اور 13 پولیس اور حکومت کے حامی عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت عمارت میں شادی کی تقریب ہورہی تھی اور حملہ آور ہیڈ کوارٹر نہیں پہنچ سکے۔
خلیل اسیر نے کہا کہ پولیس نے بہادری سے دفاع کیا اور طالبان کو شادی کی تقریب میں داخل ہونے سے روکا دیا۔ تخار کی صوبائی کونسل کے ایک رکن محمد اعظم افضلی نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کہ کم از کم 7 گھنٹے جاری رہنے والی اس لڑائی میں 17 پولیس اور حکومت کے حامی ملیشیا ہلاک ہوگئے۔
دوسری جانب طالبان نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
وزارت دفاع نے بتایا کہ جنوبی صوبہ زابل میں اتوار کی رات ایک فوجی چوکی پر طالبان کے حملے میں کم از کم 6 فوجی ہلاک ہوگئے۔
علاوہ ازیں وزارت داخلہ نے مزید بتایا کہ پیر کی صبح کابل شہر میں ایک چھوٹے ٹرک میں نصب بم پھٹنے سے 4 افراد زخمی ہوگئے۔
تاہم کسی نے فوری طور پر اس حملے کا دعوی نہیں کیا۔
واضح رہے کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر 29 فروری کو دستخط کیے تھے تاہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی طرف پیشرفت میں افغان سیاستدانوں کے درمیان عداوت اور قیدیوں کی رہائی اور بات چیت سے قبل ممکنہ سیز فائر کی پیشگی شرائط کے معاملات پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب طالبان نے افغان حکومت کی ٹیم سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا جس سے امن معاہدے کے تحت امریکا کے اگلے اقدامات کو ممکنہ طو پر دھچکا لگنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح الہ مجاہد نے کہا تھا کہ ‘گروپ حکومت کی اس ٹیم سے مذاکرات نہیں کرے گا کیونکہ اس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی نہیں ہے۔’
افغان حکومت نے جمعرات کو اس ٹیم کا اعلان کیا تھا جس کی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے تعریف کی تھی۔
خیال رہے کہ افغان حکومت نے طالبان سے بین الافغان مذاکرات کے لیے 5 خواتین سمیت 21 رکنی وفد کو حتمی شکل دی تھی۔
اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ کیا وہ اس مذاکراتی ٹیم کی حمایت کریں گے؟
افغان سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ عبداللہ عبداللہ کا اس حوالے سے فیصلہ بہت اہمیت رکھے گا کیونکہ ملک کے شمال اور مغربی حصوں میں وہ کافی بااثر ہیں۔