جنوب مشرقی آسٹریلیا میں جنگلات میں لگی آگ انتہائی بدترین صورتحال اختیار کر گئی ہے جس کے سبب چھٹیاں منانے کے لیے گئے ہزاروں سیاح اور مقامی افراد محصور اور ساحل پر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ان کے پاس زمین پر پناہ لینے کی کوئی بھی جگہ نہیں بچی ہے۔
ملاکوٹا اور آسٹریلیا کے دیگر جنوب مشرقی ساحلی علاقوں میں 200کلو میٹر سے زائد رقبے کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے سبب 4ہزار افراد ساحلی علاقوں میں پھنس گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: آسٹریلیا کے جنگلات میں آتشزدگی سے 150 گھر خاکستر، فائر ایمرجنسی نافذ
اس آگ سے بچنے کے لیے کچھ لوگ کشتیاں لے کر کھلے سمندر میں نکل گئے ہیں تاکہ اپنی جان بچا سکیں۔
پیر کی رات سے اب تک درجنوں جائیدادیں اور املاک راکھ کا ڈھیر بن چکی ہیں جبکہ نیو ساؤتھ ویلز اور وکٹوریہ میں سات افراد لاپتہ ہیں جہاں آگ نے ان ریاستوں میں مشہور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
فائر سروس کا کہنا ہے کہ کچھ علاقوں میں تو آگ کے شعلے، دھویں کے بادل اور آگ کے دھکتے ہوئے انگارے اس حد تک شدید ہیں کہ فضا کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا عمل اور پانی سے آگ بجھانے کے سلسلے کو روک دیا گیا ہے۔
ملاکوٹا میں تو حالات اس حد تک گمبھیر ہو گئے ہیں کہ شدید دھوئیں کے سبب دن کے وقت بھی رات کا گمان ہورہا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ قریب ہی لگی آگ سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز میں فائر فائٹرز آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
وکٹوریہ ایمرجنسی مینجمنٹ کے کمشنر اینڈریو کرسپ نے بھی خطرے کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ آگ ملاکوٹا پر کسی بھی وقت اثرانداز ہو سکتی ہے اور عوام کو تحفظ یقینی بنانے کے لیے فائر فائٹرز کو تعینات کردیا گیا ہے۔
آسٹریلین حکام اپنے ملک میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آئے سیاحوں کو کئی دنوں سے خبردار کر رہے تھے کہ وہ جلد از جلد کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں لیکن اب ان کے لیے علاقے سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
کرسپ نے بتایا کہ ہم نے تین ٹیموں کا ملاکوٹا میں تقرر کردیا ہے جو ساحل پر تقریباً 4ہزار افراد کی دکھ بھال کریں گی، ہم محصور ہو جانے والے افراد کے بارے میں کافی فکرمند ہیں۔
اس خطرناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو بذریعہ سمندر یا ہوا ان علاقوں سے نکالنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے کیونکہ براستہ ٹرین یا بس ان کا نکلنا اب ناممکن ہے۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی پوسٹوں میں آگاہ کیا ہے کہ وہ بذریعہ کشتی علاقوں سے نکلنے کے لیے کوشاں ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ جان بچانے کے لیے لائف جیکٹ پہن کر سمندر میں کود جائیں گے۔
جن جگہوں پر جنگلات میں آگ لگی ہے وہاں پر درجہ حرارت سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے اور شعلوں کی زد میں آ کر ہر چیز تہہ و بالا ہو گئی ہے۔
وکٹوریہ ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کا کہنا ہے کہ سمندر میں پناہ لینا ہی ہمارے پاس واحد آخری راستہ ہے۔
مقامی ریڈیو کی صحافی فرنسیسکا ونٹرسن نے بتایا کہ وہ آگ کو اپنے علاقے کی جانب بڑھتا ہوا دیکھ رہی ہیں اور بجلی کی ممکنہ بندش سے قبل ایرجنسی وارننگ جاری کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میں گھر میں رہی تو زندہ نہیں بچ پاؤں گی لہٰذا میں گھر سے باہر رہنے کو ترجیح دے رہی ہوں۔
آسٹریلیا کی تاریخ میں جنگلات میں اس طرح کی آگ لگنے کی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں کئی ماہ سے لگی یہ آگ گرمی کی شدید لہر اور تیز ہواؤں کے سبب مزید بدترین شکل اختیار کر گئی ہے۔
لوگوں نے جان بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے اپنے تئیں انخلا کا عمل شروع کردیا ہے— فوٹو: رائٹرز
یہ بحران سڈنی اور میلبرن جیسے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جہاں لاکھوں لوگ رہائش پذیر ہیں۔
جنگلات میں لگی اس آگ سے اک فائیر فائٹر کی موت کے بعد پیر کو میلبرن کے نواحی علاقوں سے تقریباً ایک لاکھ افراد کے انخلا کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا میں گرمی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے
رورل فائر سروس کے مطابق سڈنی کے جنوب مشرق میں 5گھنٹے سے زائد دیر تک آگ بجھانے کی کوشش کرنے والے فائر فائٹر کے رضاکاروں میں سے ایک نیو ساؤتھ ویلز میں جان کی بازی ہار گیا جبکہ دو رضاکار بری طرح سے جھلس گئے۔
اب تک اس آگ کی زد میں آ کر آسٹریلیا بھر میں مزید 10افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔
وکٹوریہ کے علاقے ملاکوٹا میں آگ لگنے کے بعد پورا علاقہ سرخ مائل منظر پیش کرنے لگا— تصویر بشکریہ ٹوئٹر
آگ کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 7.4ملین ایکڑ زمین متاثر ہوئی ہے جہاں یہ رقبہ بیلجیئم کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے۔
مغربی آسٹریلیا میں درجہ حرارت 47ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا ہے جبکہ ملک کے اکثر حصوں میں درجہ حرارت 40ڈگری سے زائد ہے۔