سننے والے انگریزی نہیں جانتے تھے مگر اتنا ضرور جانتے تھے کہ ان کا قائد اپنے مؤقف اور مطالبے پر ڈٹا رہے گا۔ اس کے جان نثار وں کو یقینِ کامل تھا کہ ان کا سردار و سالار جب جہاں جیسے اور جس زبان میں بھی بولے گا سچ بولے گا، بے خوف و بے دریغ بولے گا، ان کے دل کی بات کہے گا، ان کے خیال و جذبات کی ترجمانی کرے گا،ایسی ترجمانی جو کسی ترجمے اور مترجم کی محتاج نہیں ہے۔اس کی قوم سدا اس سے راضی رہی اور وہ اپنی قوم سے راضی رخصت ہوا اس کا رب اس سے راضی ہو آمین!
اب آپ کو ایک بہت ہی نادر تحریر سنانے کی اجازت چاہوں گا نادر اس لیے نہیں کہ اس میں، میں نے انشاپردازی کا کوئی کمال دکھایا ہے بلکہ موضوع خود اتنا عظیم ہے کہ وہ اب تبرک کے حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے قائدِ اعظم کو آگرے میں عدالتِ فوجداری میں ایک کرمنل کیس میں بحیثیت وکیلِ صفائی جراہ، بحث اور دفاعی دلائل و شواہد پیش کرتے دیکھا تھا۔ آج جب یادوں کو سمیٹنے بیٹھا ہوں تو باخبر حضرات بالخصوص وکلاء صاحبان نے مجھے باور کرایا ہے کہ زندوں میں، میں واحد شخص ہوں جسے یہ شرف حاصل ہوا۔
اس کی رْوداد مختصر کرکے آپ کے حسنِ سماعت کی نظر ہے۔ میں نے اواخرِ 1942ء میں سینٹ جونز کالج آگرہ میں ایم اے انگلش میں داخلہ لیا تو میرے کلاس فیلو منصور حسن خاں نے روزِ اوّل سے اپنی تحویل اور سرپرستی بلکہ پڑپرستی میں اس طرح لیا جیسے مرغی تڑخے ہوئے انڈے سے تازہ تازہ برآمد ہونے والے بے بال و پر چوزے کو اپنے پھولے ہوئے پروں تلے دبوچ کر گرم پوٹے سے چمٹائے رکھتی ہے۔ پہلی ملاقات سے اپنی وفات تک جس کی مدت کم و بیش 60 سال بنتی ہے، منصور حسن صاحب مجھے سیّد صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
جیسے ہی یوپی کے ماحول اورنستعلیق طور طریق سے میری چندیاہٹ کم ہوئی اور تازہ سیکھے ہوئے محاورے کے مطابق حیاؤ کھلا تو میں نے پوچھا کہ حضرت آپ مجھے سیّد صاحب کیوں کہتے ہیں، بولے معاف کیجیے میں نے آپ کوطنزاً قریشی یا انصاری تو نہیں کہا جس سے آپ Offend ہوں۔ سیدھے سبھاؤسیّد صاحب کہتا ہوں۔ آپ نے اچھا کیا جو پوچھ لیا بات یہ ہے کہ میں آپ کی عزت کرناچاہتا ہوں مگر اس کا کوئی Real یا فرضی جواز بھی تو ہونا چاہیے۔
پہلے ہی دن پہلا مژدہِ جاں فزا انہوں نے یہ سنایا کہ ایک فوجداری فیصلے کے سلسلے میں قائدِ اعظم ہر پیشی پر آگرے تشریف لاتے ہیں تو ہماری تو عید ہوجاتی ہے۔ میں تو ہر پیشی پر ملزم سے بھی پہلے پہنچ جاتا ہوں اگلی پیشی پر آپ بھی ساتھ چلیں۔
منصور حسن خاں سے روایت ہے کہ قائدِ اعظم پہلی دفعہ سیسل ہوٹل میں چیک اِن ہوئے تو اینگلو انڈین مینیجر نے انہیں یہ وی آئی پی سوئیٹ دکھایا جو انہیں بہت پسند آیا۔ مینیجر نے اتراتے ہوئے قائدِ اعظم سے کہا کہ:
His highness the nawab of Rampur stay in the suit
قائدِ اعظم نے ایک لمحہ تحمل کیے بغیر اپنے کرارے کڑکیلے لہجے میں فرمایا:
When the nawab of Rampur comes again would you mind telling him Mr. Jinnah stayed in this room۔
بالآخر وہ دن آگیا جب منصورحسن خاں نے وہ خوشخبری سنائی جس کا بے چینی سے انتظار تھاکہنے لگے قائدِ اعظم پانچ دن بعد آگرے میں ہوں گے انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے اپنے ہمراہ عدالت لے جائیں گے۔ داخلے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی اس لیے کہ ان کے ماموں خان بہادر اختر عادل گورنمنٹ یعنی پراسیکیوشن کی نمائندگی کررہے تھے۔ باالفاظِ دیگر قائدِ اعظم کے مخالف ایڈوکیٹ تھے۔
مقدمے کی نوعیت مختصراً یہ تھیکہ آگرے کے سیٹھ کیسری چند پر یہ فردِ جرم لگائی گئی تھی کہ منافع بخش ٹینڈر حاصل کرنے کی غرض سے اس نے کیپٹن فوسٹر کو بھاری رشوت دینے کی کوشش کی تھی۔ مقدمے کی زیادہ تفصیلات بتانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ فوجداری مقدمہ احمد حسین مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا وہ ایک بااصول، نڈر افسر تھے اور Convicting مجسٹریٹ کی شہرت رکھتے تھے۔
کیسری چند کے والد نے سرتیج بہادر سپرو سے درخواست کی کہ وہ اس کے بیٹے کا دفاع بحیثیت وکیلِ صفائی کریں مگر سپرو نے جتنی فیس کا عندیہ دیا وہ کیس کیسری چند کی بساط سے باہر تھی۔اس کے والد اسمبلی کے ممبر تھے نوابزادہ لیاقت علی خاں سے اچھی راہ و رسم تھی لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ قائدِ اعظم کو وکیل ِ صفائی کی حیثیت سے مقدمے کی پیروی پر آمادہ کریں۔قائدِ اعظم بوجوہ یہ کیس نہیں لینا چاہتے تھے۔اس نے لیاقت علی خاں کی بہت منت سماجت کی۔ دیرینہ تعلقات اور اسمبلی کی ممبری کا واسطہ دیا،اس کی عزت اور ساکھ دونوں خطرے میں تھیں۔جان پر بنی تھی، لیاقت علی خاں ویسے بھی اس کا خیال کرتے تھے لیکن قائدِ اعظم کسی طور رضامند نہ ہوئے کافی غور اور ردوقدا کے بعد یہ حل نکالا گیا کہ تمام فیس جو بشرح پانچ ہزار روپے یومیہ مقرر کی گئی تھی براہِ راست مسلم لیگ کے اکاؤنٹ میں جمع کردی جائے گی اور حرف بہ حرف پیشی بہ پیشی ایسا ہی ہوا۔
مجموعی طور پر قائدِ اعظم نے 31 دن اس مقدمے کی پیروی کی جو ان کے لیے یقیناً باعثِ زحمت و خسارہ رہی ہوگی اس لیے کہ ان کی سیاسی مصروفیات و ذمے داریاں بے پناہ تھیں انہیں ہر پیشی پر بمبئی سے بذریعہ ٹرین آگرے آنا پڑتا تھا۔ جس میں سخت بے آرامی کے علاوہ ان کے قیمتی وقت کابے اندازہ ضیاع بھی تھا تاہم کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ کسی ہنگامی مصروفیت یا ناسازی طبیعت کے باعث پیشی پر حاضر نہ ہوسکے ہوں۔
پیشی کے دن منصور حسن خان اور میں عدالت کے مقررہ وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچ گئے۔ دیکھا کہ قائدِ اعظم ہم سے بھی پہلے آچکے ہیں اور عدالت کے باہر آہستہ آہستہ محوِ خرام ہیں کہ دروازہ کھلے تو اندر جائیں۔ایسا لگتا تھا کہ وہ گہری سوچ میں گم ہیں انہوں نے آنکھ اٹھاکر ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا اور نہ کوئی شخص ان کے قریب گیا۔ان کے ہونٹوں میں ایک بے جلا سگریٹ دبا ہوا تھا دو چکروں کے بعد ان کے سیکریٹری نے جو غالباً سندھی ہندو تھا آگے بڑھ کے ماچس سے سگریٹ سلگایا لیکن میں قائد کو کش لیتے یا راکھ جھاڑتے نہیں دیکھا۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے انہوں نے ہلکے کریم رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ منصور کہنے لگے کہ آپ نے پتلون کی ریزر شارپ کریس دیکھی۔ ارے صاحب چہرہ دیکھنے سے فرصت ملے تو کچھ اور دیکھوں۔ ایک عجیب دبدبے اور رعب کا احساس ہوتا تھا جسے تمکنت، تنتنا یا رعونت ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ قائدِ اعظم کے چہرے پر جو عزم ثمم، اعتماد اور لہجے میں جلالی تیقن اور گھن گرج دیکھی وہ اس حدِ کمال تک کہیں اور نظر نہ آئی۔ اس مقدمے میں منصور حسن خاں کی دلچسپی اور شغف کا یہ عالم تھا کہ تاریخوں پر ملزم کو مچلکے اور ضمانت کی رو سے حاضر ہونا پڑتا تھا۔
منصور حسن خاں نے تمام پیشیاں بطورتماشائی بھگتائیں۔ بالعموم وہ ملزم اور مجسٹریٹ سے پہلے پہنچ جاتے۔ ایک پیشی پر نہ جاسکے تو مجسٹریٹ نے اپنے پیش کار سے پوچھا کہ خان بہادر صاحب کا بھانجا آج کیوں غیر حاضر ہے۔ منصور حسن خاں بیان کرتے تھے کہ ایک جب قائد صبح 9 بجے کورٹ پہنچے تو دیوار پر آویزاں کلاک تین بجا رہا تھا قائد نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجسٹریٹ سے کہا
Your Honour does it mean we’ll have no lunch today
دوسرے دن دیوار پر نئی گھڑی لگادی گئی۔ گورنمنٹ نے پراسیکیوشن کی کمک پرلکھنؤسے ایک نہایت لائق و فائق وکیل جے کرم ناتھ مشراکو بلایا تھا۔ مقدمے کی کارروائی ٹھیک 9 بجے شروع ہوئی کورٹ میں وزیٹرز کی تعداد بمشکل 20 ہوگی میں نے دیکھا کہ قائدِ اعظم بالکل خاموش بیٹھے کارروائی دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ خیالات میں گم کہیں اور ہیں۔ مگر چند لمحوں بعد یہ بھی دیکھا کہ یکایک چمک کر برمحل اعتراض جڑ دیا یا کوئی کٹیلافقرہ کَس دیا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ ایک ایک لفظ بڑے غور سے سن رہے تھے۔
کیا بتاؤں ان کے مونوکَل نے مجھے کتنا Facinateکیا ہفتوں سرگرداں و حیران رکھا ان کے چہرے پر وہ مونوکَل سجتا تھا اور وہ اس کا بہت برمحل قدرِڈرامائی اور مخالف کو پچکا دینے اور چپکا کر دینے والا استعمال کر دیتے تھے۔کھڑے ہوکر اعتراض کرنے سے پہلے وہ اسے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت سے اس طرح چھوتے گویا زاویہ درست کررہے ہیں۔جب کہ وہ زاویہ پہلے ہی بالکل ٹھیک تھا۔ اچانک کاروائی کرنے حریف کو بھونچکا اور لاجواب کرنے کے بعد وہ اسے ایک ادائے خاص سے اس طرح اتارتے جیسے شمشیر برّاں و برہنہ کو نیام کر رہے ہوں حریف کوقائل، لاجواب یا پسپاکرنے کے بعد بشرے سے فتح مندی یا برطری کے آثار ظاہر نہیں ہوتے تھے چہرے کے ایکسپریشن میں قطعی کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوہ ِ وقار جہاں تھا اب بھی وہیں ہے اور ویسا ہی ہے۔
اب سنیے مونوکَل اب مجھے زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اور کامیابی کی ضمانت محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا چند روز بعد جے پور گیا ایک اینگلو انڈین آپٹیشن سے جس نے حال ہی میں شاندار دکان کھولی تھی مونوکَل بنانے کو کہا اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ منہ سے کچھ کہنا بالکل غیر ضروری ہوگیا۔ بہرحال چند لمحوں بعد اس نے وضاحت کی کہ Young man یہ وہ لوگ Use کرتے ہیں جن کی ایک آنکھ نارمل ہو اور دوسری میں بینائی کم ہو۔ Exceptional cases میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آنکھ ویک ہے اور دوسری میں بینائی بالکل نہیں ہے تو مونوکَل لگانا مانگتا ہے۔ آپ کی تو دونوں آنکھوں میں روشنائی ہے اس دن مجھے اپنی ایک آنکھ پر بڑا غصہ آیا جس میں ہنوز بینائی باقی تھی لیکن جی کڑا کرنے کے باوجود یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ کس آنکھ کی بینائی سے محروم ہونا پسند کروں گا دائیں یا بائیں، بائیں یا دائیں۔ خیال آیا کہ بندہء خدا کہ تیری کون سی حسرتیں اور آرزوئیں پوری ہوئی ہیں جو یہ نیا رانڈ رونالے کر بیٹھ گیا۔
خود کو اس طرح قائل کرنے کے بعد میں نے اپنی عینک ایک فاتحانہ اندازِ پسپائی کے ساتھ اتار کر میز پر رکھ دی اور فی الحال بدرجہ مجبوری دونوں آنکھوں کی بینائی کو برداشت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ خان بہادر اختر عادل پراسیکیوشن کے سربراہ کی حیثیت سے ہر پیشی پر موجود ہوتے۔ بہت خوش اخلاق، خوش لباس، خوش خوراک، شریف نفس اور بہت موٹے تھے۔ خود سے بھی زیادہ موٹے تین بیٹوں کے باپ تھے۔ ایک دن لنچ کے بعد مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خان بہادر صاحب کی آنکھ غلبہئ بریانی سے ایسی جھپکی کہ دیر تک نہ کھلی۔ ان کی دوہری تھوڑی جو پہلے ہی مستقل رگڑ اور میل سے چمکنے لگی تھی۔
قائدِ اعظم نے عدالت کی توجہ گورنمنٹ ایڈوکیٹ کی حالتِ کی جانب کراتے ہوئے فرمایا کہ:
Khan Bahadur Akhtar Adil is having his ciesta after a sumptous lunch court proceedings are likely to disturb him
قہقہوں سے خان بہادر صاحب ہڑبڑا کر جاگ گئے اور اپنے جونیئر سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا ہے یہ کورٹ میں ہلڑ کاہے کو مچا رہے ہیں کورٹ کا ڈیکورم خراب کر رہے ہیں۔ قائدِ اعظم کا سوال جراہ اور نقطہ ء اعتراض سب بہت اچانک برمحل اور برجستہ تھے۔ مخالف وکلاء اور خود مجسٹریٹ بھی ہمیں تو سہمے سہمے پچکے پچکے سے لگے۔ یہ بات ہم تحقیراً نہیں کہ رہے اس لیے کہ خود ہم بقول مرزا مبہوت اور گھگھیائے گھگھیائے سے بیٹھے تھے اگر فقط ملزمانہ Diminer یعنی حلیہ و قیافا کی بنا پر شناخت پریڈ میں ملزم کی شناخت کرائی جاتی تو ہیر پھیر کے ہر گواہ کی انگشتِ شہادت میری ہی جانب اٹھتی۔
میجرمارٹن کلیدی گواہِ استغاثا تھا اس سے کئی دن تک جراہ ہوتی رہی۔ جس دن میں کورٹ میں موجود تھا لنچ کے بعد قائدِ اعظم نے ایک ٹیکنیکل اعتراض کیاجس پر وکیلِ سرکارشرا بولا It Does’nt Metter۔ مجسٹریٹ احمد حسین نے بھی اس کی تائید میں وہی مصرع دوہرایا It Does’nt Metterجب قائد کے دوسرے اور تیسرے اعتراض پر بھی مجسٹریٹ نے وہی فقرا دوہرایا It Does’nt Metter Mr. Jinnah۔ اعتراض تحکامانہ انداز سے رَد کردیا تو قائد ڈٹ کر کھڑے رہے مونوکل کے بالکل درست فوکس کو مزید درست کرنے کے بعد فرمایا:
Your Honour it seems that nothing matter in this court
یہ کہا اور ایک شانِ استغنا کے ساتھ مونوکل اتار کے بیٹھ گئے۔ سنا ہے کہ اس کے بعد اْس عدالت ہی میں نہیں آگرے کی کسی بھی عدالت میں It Does’nt Metter کا فقرا سننے میں نہیں آیا۔ منصور احمد خان نے روزِ اوّل سے انصافِ مقدمہ تک ہر پیشی پر حاضری دی وہ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ دورانِ سماعت قائدِ اعظم کو ایک دن کے لیے جالندھر جانا پڑا واپسی میں کسی ناگزیر وجہ سے ٹرین کے بجائے کار سے آنا پڑا لیکن کار آدھے راستے میں خراب ہوگئی۔ ایک ملٹری کانوائے نے لفٹ دی سخت سردی تھی قائد کو شدید زکام ہوگیا۔ دوسرے دن وہ کورٹ پہنچے تو سب نے دیکھا کہ ان کی کرسی کے پیچھے ان کا ملازم کھڑا ہے جو وقفے وقفے سے انہیں نیا رومال دے رہا ہے۔ ان کی طبیعت کافی خراب تھی ریزش اپنے اور دوسرے کے لیے بھی تکلیف دے حد تک شدید اور مسلسل تھی۔
وہ بار بار منہ پر رمال رکھ کر زکام اور پرْ شور کھانسی کو اْلٹی کھانسی سے دبانے کی کوشش کر رہے تھے اْلٹی کھانسی سے ایسی کھانسی مراد ہے جس کی کھوں کھوں کھرْکھْر کھْس کھْس اور ٹھس کا اور بلغم باہر کے بجائے الٹا اندر جائے وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے retirement لے سکتے تھے لیکن انہیں یہ کسی طور گوارا نہ تھا حسبِ معمول پوری تیار ی، توجہ اور حاضر دماغی اور حاضر جوابی سے کیس کی پیروی کی۔ جو سخت کوشی اور ڈسپلن ان کی ذاتی زندگی میں تھا ویسا ہی اور اتنا ہی ان کی سیاسی اور پروفیشنل زندگی میں عیاں تھا۔ عالمی جنگ اپنے آخری جان لیوا مرحلے سے گزر رہی تھی۔دن میں دو تین دفعہ سائرن ضروربجتا تھا۔جیسے ہی وہ بجتا سارا ٹریفک جہاں کا تہاں کھڑا رہ جاتا۔ لوگ دوڑ کر نزدیک ترین جگہ پناہ لیتے جب تک آل کلیئر کا سائرن نہ بجے کوئی شخص یا سواری سڑک پر حرکت نہیں کرسکتی تھی ایک دن عدالت میں لنچ انٹرول ہوا اور قائد ہوٹل روانہ ہونے سے پہلے اپنے کاغذات اور کتابیں سمیٹ رہے تھے کہ یکایک سائرن بجا انہوں نے کاغذات اور کتابیں واپس میز پر رکھ دیں اور اپنی نشست پر خاموش بیٹھے رہے مجسٹریٹ نے یہ دیکھا تو قائد کو مخاطب کرکے یہ کہنے لگاکہ آپ تردد نہ کیجیے۔آپ حسب ِ معمول کارسے لنچ کے لیے ہوٹل جاسکتے ہیں۔
I will give you a permit as a special case
اب ذرا قائدِ اعظم جواب ملاحظہ کیجیے فرماتے ہیں:
Thanks I wonld’nt like to be seen as a special case on the roads of Agra.
وہ دن قائد نے لنچ کے بغیر گزارا لنچ کے ذکر پر مجھے ناشتے سے متعلق ایک دلچسپ بات یاد آئی۔ وکٹوریہ روڈ کے دوسرے نکڑ پر ایک بہت عمدہ ریسٹورنٹ کیفے گرینڈ تھا۔ جہاں اتوار کو بڑی رونق ہوتی تھی۔1953 سے 1958 تک میں بھی جا نکلتا تھا۔ اس کے مینیجر نے ہمیں بتایا کہ عرصہ دراز سے گورنر ہاؤس کو کنفیکشنری کیفے گرینڈ ہی سے سپلائی ہوتی تھی۔ اس کا ثبوت بائی اپائنٹمنٹ والی تختی بھی تھی جو باہری دیوار پر نمایاں جگہ نصب تھی۔
1947 کے بعد گورنر جنرل ہاؤس کو بھی ڈبل روٹی وغیرہ کیفے گرینڈ ہی سپلائی کرتا تھا۔ ایک دن مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا فون آیا کہ فٹ بھر لمبی ڈبل روٹی آپ روزانہ بھیجتے ہیں وہ ضائع جاتی ہے، اس لیے کہ ناشتے پر صرف ہم دو ہوتے ہیں آپ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں جو بس ہم دونوں کے لیے کافی ہو۔ مینیجر نے جواب دیا میڈم ہمارے یہاں تو برسہا برس سے اسی اسٹینڈرڈ سائز کی ڈبل روٹی بیک کرنے کا ایک ہی سانچہ استعمال ہوتا ہے۔محترمہ نے جواب دیا تو آج ہی چھوٹا سانچہ بنوالو you see my point۔ مینیجر نے وہ چھوٹا سانچہ ہمیں دکھایا جس میں صرف ایک منّی سی ڈبل روٹی بنتی تھی۔قائدِ اعظم کی رحلت کے بعد روزانہ ایک وین میں اٹااٹ بھری کنفیکشنری حسبِ دستورِ قدیم بھیجی جانے لگی۔ اس ریسٹورنٹ کے سائن بورڈ آج بھی نظر آتا ہے گوکہ موسم زدگی اور زبوں حالی کے آثا ر سائن بورڈ تک سے ہویداہیں جو اب میرا ہم عمر لگتا ہے۔ میں ادب اور پوری سنجیدگی سے یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومت اس تاریخی اور متبرک سانچے کو حاصل کرکے میوزیم میں تبرکاً اور تیمناًسجائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ تھا ہمارا قائد اور ایسی تھی اس کی زیرک اور سلیقہ شعاربہن۔ زبانِ خلق کو نقارہ ِ خدا بھی کہا گیا ہے لیکن کیا جائے کہ اس نقارے کوبعض اوقات شیطان دَمادَم بجانے لگتا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران بعض حلقوں میں مسلسل سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں ہوتی رہیں کہ سیٹھ کیسری چند نے قائدِ اعظم کو فقط اس لیے انگیج کیا ہے کہ مجسٹریٹ مسلمان ہے۔ چہ مگوئیاں اس وقت ختم ہوئیں جب اسی مسلمان مجسٹریٹ احمد حسین نے قائدِ اعظم کے مضبوط دفاع بہترین دلائل اور استغاثے کے خامیوں اور قانونی اسقام کے باوجود سیٹھ کیسری چند کو سزائے قیدِ بامشقت سنادی۔ آگرے سے روانہ ہونے سے قبل قائدِ اعظم نے کیسری چند کے وکیلوں کو گراؤنڈ اپیل ڈکٹیٹ کرائے۔ بالکل انھی خطوط اورنہج پر اپیل دائر کی گئی جس کا فیصلہ بلاآخر کیسری چند کے حق میں ہوا اور وہ بری کردیا گیا قائدِ اعظم کی محنت ٹھکانے لگی۔
یہ باب اس وقت تک ادھورا رہے گا،اگر یہ نہ بتاؤں کہ جس دن کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا احوال بیان کیا ہے۔ اسی دن شام کو مسلم لیگ نے بیکر پارک میں ایک شاندار جلسہ عام کا اہتمام کیا تھا۔ منصور حسن خان وہاں بھی بصدِشوق ساتھ لے گئے۔ نو دس ہزار کا مجمعہ ہوگا قائدِ اعظم ٹھیک وقت پر تشریف لائے۔ دیر تک نعرے لگتے رہے تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو منصور حسن خان بولے آپ نے دیکھا آج اس وقت شیروانی اور چوڑی دار میں ہیں۔ میں چہرہ دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ کسی اور طرف نظر نہ گئی۔ مجھے تو یوں لگا جیسے چہرہ ہی چہرہ پاؤں سے سر تک اور چہرہ بھی وہ جو غیر متزلزل اور عزم و استقامت کی تصویر تھا۔ اندازاً 35 منٹ تک انگریزی میں تقریر کی محسوس ہوتا تھا۔انہیں اپنی بات کی سچائی اور مؤقف پر کامل و محکم یقین ہے۔ نیز جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں وہ بے محابہ اور برَملا کہنے کی جرات رکھتے ہیں۔نو دس ہزار کے مجمعے میں بمشکل چار پانچ سو ایسے سامعین ہوں گے جو انگریزی سمجھتے ہوں یا انگریزی میں سوجھ بوجھ رکھتے ہوں لیکن سب انتہائی خاموشی سے ہمہ تن گوش تقریر سنتے رہے۔ آخر میں سات آٹھ منٹ ٹوٹی پھوٹی لیکن دل میں اتر جانے والی اردو میں گفتگو کی وہ سادہ اور تھوڑے لفظوں میں بڑی بات کہہ جاتے تھے۔
بعض حلقوں میں مسلسل سرگوشیاں اور چے مگوئیاں ہوتی رہیں کہ سیٹھ کے سری چند نے قائدِ اعظم کو فقط اس لیے انگیج کیا ہے کہ مجسٹریٹ مسلمان ہے۔ سوئے زن خفظ اور استرا پر مبنی چے مگوئیاں اس وقت ختم ہوئیں جب اسی مسلمان مجسٹریٹ احمد حسین نے قائدِ اعظم کے مضبوط دفاع بہترین دلائل اور استغاثے کے خامیوں اور قانونی اسقام کے باوجود سیٹھ کے سری چند کو سزائے قیدِ بامشقت سنادی۔
آگرے سے روانہ ہونے سے قبل قائدِ اعظم نے کے سری چند کے وکیلوں کو گراؤنڈ سفے پیل ڈکٹیٹ کرائے بالکل انہی خطوط اورنہج پر اپیل دائر کی گئی جس کا فیصلہ بلآخر کے سری چند کے حق میں ہوا اور وہ بری کردیا گیا قائدِ اعظم کی محنت ٹھکانے لگی۔