پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل میں لے جانے کا اعلان


اسلام آباد: پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں لے جانے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا ہے، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینا غلط ہے، ہم نے 28 ممالک کو قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں اور اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فوج تعینات ہے، ہر گھر کے باہر سپاہی موجود ہے، مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے جیل بنادیا کیا یہ فلاح بہبود ہے، کیا 70 برس پہلے کشمیریوں کیلیے فلاح و بہبود پر کوئی قدغن تھی؟۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت کب تک 1کروڑ 40 لاکھ کشمیریوں کو قید میں رکھے گا، کشمیر بین الاقوامی متنازع مسئلہ ہے، نہرو نے 14 بار وعدے کیے کہ کشمیر کا فیصلہ اس کے عوام کی خواہش کے مطابق ہوگا۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ بھارت نے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مسترد کردی ہے، پاکستان کے فیصلے سے افغانستان کی تجارت متاثر نہیں ہوگی، انڈراسٹینڈنگ برقرار رہے گی، پاکستان کی جانب سے فضائی حدود محدود کرنے کی خبر غلط ہے، پاکستان نے فضائی حدود محدود نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کشمیر پر ڈائیلاگ میں کردار ادا کرسکتی ہے تو پاکستان تیار ہے، اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کشمیر سے متعلق کئی قرار دادیں موجود ہیں، بھارتی یکطرفہ اقدام کے خطے پر منفی اثرات ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت کی طرف سے پلوامہ ٹو جیسا ڈرامہ رچا سکتا ہے اور کوئی نیا آپریشن کیا جاسکتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری جبر اور تشدد سے دنیا کی توجہ ہٹانے کےلیے بھارت نیا ناٹک رچا سکتا ہے، ہم کسی بھی جارحیت سے خلاف اپنا تحفظ کریں گے اور محتاط رہیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین بند کیے جانے کی تصدیق کی۔

وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ ہم چوکس ہیں لیکن ملٹری آپشن زیر غور نہیں، پاکستان نے سفر کا آغاز کردیا ہے اور مشترکا قراداد اس کا آغاز ہے، قومی سلامتی کمیٹی کی قائم کمیٹی میں تمام اداروں کی نمائندگی ہے، چین سے واپسی کے بعد اس کمیٹی کا اجلاس ہوگا، بھارت ہمیں نظر ثانی کرنے کو کہہ رہاہے،تو دو طرفہ نظر ثانی کیوں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کی جائے گی، سفارتکاروں کی نقل و حمل بھی محدود کی جائے گی۔


اپنا تبصرہ لکھیں