کراچی: کراچی میں پانی کے مسئلے پر غور کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اسٹیک ہولڈرز کی طویل کانفرنس ہوئی جس میں مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
کانفرنس میں میئر کراچی وسیم اختر، کمشنر کراچی، سیاسی جماعتوں کے رہنما، تاجر رہنماؤں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کمیٹی بنائی ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے ہوں گے اور کمیٹی ہر 15 دن میں ملاقات کرے گی جو پانی کی لیکج، پانی کی چوری اور ڈسٹریبوشن کو مانیٹر کرے گی۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 250 بلین روپے چاہیے جس کیلیے ورلڈ بینک سے بات کر رہے ہیں اور جب ورلڈ بینک سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ڈبلیو ایس بی کو پہلے ٹھیک کریں، کے ڈبلیو ایس بی کو دوبارہ مرتب کریں تاکہ جو لون ہم دیں گے وہ واپس بھی ہوگا۔
اب ورلڈ بینک سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج امپرومینٹ پروجیکٹ شروع کرنے جا رہے ہیں، اب سی ڈی ڈبلیو پی میں یہ پروجیکٹ منظور ہونا ہے جب کہ گندے پانی کی ری سائیکلنگ کا پروجیکٹ 50 ایم جی ڈی پانی صاف کرے گا اور اس حوالے سے ایک کمپنی سے بات کر رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واٹر بورڈ کو مسائل کا حل بتانا چاہیے، یہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی پانی کی کمی ہوتی گئی۔
فردوس شمیم نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ری سائیکلنگ سے کتنا پانی پیدا کیا جاسکتا ہے، اس کا کسی نے تعین کیا؟ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ناقص کارکردگی پر انہوں نے کہا کہ یہ شفاف گورننس نہیں ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مسائل کا حل وزیراعلیٰ سندھ اور محکمہ بلدیات کے پاس ہے، پانی کی چوری بہت اہم مسئلہ ہے اس کو روکنا ہوگا، کے ڈبلیو ایس بی پانی چوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے۔
کے فور منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن نے کانفرنس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کے فور کا روٹ 2007 میں منتخب کیا گیا اس روٹ کی سلیکشن کی بنیادوں پر فزیبلٹی بنائی گئی، پی سی 1260 ایم جی ڈی 2012 میں ریشنلائیز کیا گیا، 5 بلین روپے زمین کے معاوضے کیلیے رکھے گئے جبکہ 2014 میں بھی 25 بلین روپے کو ہی رکھا گیا۔
اسد ضامن کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ 2007 کے حساب سے 2014 میں 25 بلین روپے میں منظور ہوا، رقم کسی صورت منصوبے کے مکمل کرنے میں ممکن نہیں ، کے فور پروجیکٹ کو بجلی دینا ضروری ہوگا، 30 میگا واٹ بجلی چاہیے تاکہ پانی پمپ کیا جائے۔
کے فور کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ 2015 میں اس کے ڈیزائن مکمل ہوئے، 2016 میں ایف ڈبلیو او کو کنٹریکٹ دیا گیا، ایف ڈبلیو او نے پاور سپلائی کے بغیر 42 بلین روپے کی کاسٹ دی اور 15 بلین روپے کا سول ورک دیا جس میں کافی تعمیری کام شامل نہیں تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما حلیم عادل شیخ نے اس موقع پر کہا کہ واٹر بورڈ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، پانی چوروں کے خلاف سخت اقدامات کریں اور اے ٹی اے کی دفعات لگائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ پانی چوری کو روکنے کیلیے مدد کرنے کیلیے تیار ہیں، پانی کی تقسیم سب سے بڑا مسئلہ ہے، واٹر بورڈ میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے، ہم کے فور کے فنڈز کے لیے وفاقی حکومت کے پاس جانے کیلیے تیار ہیں۔
اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس میں رہنما جی ڈی اے نصرت سحر عباسی نے کہا کہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کو آج کے اجلاس میں بلایا نہیں گیا، کسی نے ہمیں دعوت ہی نہیں دی۔