دلوں کو جوڑنے والا چراغ: ڈاکٹر مائیک محمد غوث — محبت، فکر اور خدمت کا ایک روشن سفر
تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
کبھی کبھار قدرت زمین پر ایسی ہستیاں اتارتی ہے جو خود چراغ بن کر جلتی ہیں، تاکہ دوسروں کے راستے میں اجالا ہو سکے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معمول کی حدود سے بلند، خالص جذبے، بےلوث خدمت اور وسعتِ فکر کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مائیک محمد غوث بھی ایسی ہی ایک روشن شخصیت کا نام ہے۔ یہ تحریر محض ایک فرد کا تعارف نہیں بلکہ ایک فکر، ایک نظریے، اور ایک مسلسل جلتے رہنے والے چراغ کی کہانی ہے۔ ایک ایسی روشنی جو نسل، رنگ، مذہب، عقیدے اور سرحدوں کی دیواروں کو توڑ کر صرف انسان کو انسان سے جوڑنے پر یقین رکھتی ہے۔ ڈاکٹر مائیک محمد غوث کی زندگی کا سفر ڈیلس کے پہلے دیسی اخبار سے شروع ہوا، ریڈیو کی آواز بنا، میڈیا، مکالمے اور شعور کے پلیٹ فارم سے گزرتا ہوا بین المذاہب ہم آہنگی، ثقافتی پل، اور بین الاقوامی محبت کے پیغام تک جا پہنچا۔ یہ صرف کسی صحافی، میزبان یا لکھاری کی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسی روحانی تحریک کی جھلک ہے جو انسانیت کی بنیاد پر معاشرے کو جوڑنے کا خواب دیکھتی ہے۔

ڈاکٹر غوث کا ہر قدم اس بات کا اعلان ہے کہ خدمت، فہم، اور سچائی کے ساتھ اگر کوئی شخص کھڑا ہو جائے، تو وہ صرف ایک فرد نہیں رہتا — وہ ایک کارواں بن جاتا ہے، ایک چراغ جو زمانے کی تاریکی میں رہنمائی کرتا ہے مائیک غوث وہ چراغ ہیں جنہوں نے زمانے کی گرد، تنہائی کی دھند اور مخالفت کی آندھیوں میں بھی اپنی روشنی کو مدھم نہیں ہونے دیا۔ مجھے وہ دور آج بھی یاد ہے جب سوشل میڈیا کا وجود نہ تھا، اور خبروں کے موجودہ برق رفتار نیٹ ورک محض ایک تصور تھے۔ رابطے ای میل گروپس کی صورت میں ہوتے تھے، اور آواز اکثر سنائی نہیں دیتی تھی۔ مگر انہی دنوں میں، ڈاکٹر غوث نے اس خاموشی سے ایک آواز نکالی — ایک ایسی صدا، جس نے نہ صرف جنوبی ایشیائی کمیونٹی کو جگایا، بلکہ انہیں ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ ڈیلس جیسے کثیر الثقافتی شہر میں جب شناختیں بکھری ہوئی تھیں، ڈاکٹر غوث نے ایک ایسا پل تعمیر کیا جس پر اعتماد سے لوگ چل سکے۔ وہ صرف خبروں کے ترجمان نہ تھے بلکہ مسائل، احساسات اور انسانوں کے بیچ خلوص سے جڑی ایک زنجیر تھے۔ یہ کردار ادا کرنا آسان نہ تھا — یہ تنہا سفر تھا، مگر اخلاص سے بھرا ہوا۔ ان کی خاموش لیکن سچی جدوجہد نے دلوں کو چھوا، اور آج بھی ان کی مدھم سی آواز، سوشل میڈیا کے ہنگامے میں الگ سنائی دیتی ہے — صاف، سچی اور اثر انگیز۔
2014 کا وہ لمحہ بھی آج تک میری یاد میں روشن ہے، جب ان کی تنظیم کی جانب سے مجھے کمیونٹی ایوارڈ سے نوازا گیا — وہ بھی خود کانگریس وومن ایڈی برنیس جانسن کے ہاتھوں، اور وہ ایوارڈ میری والدہ کے ہاتھ میں تھمایا گیا۔ وہ محض ایک سند نہ تھی، بلکہ ڈاکٹر غوث کی نظرِ انتخاب، ان کی قدر شناسی اور ان کے دل کی وسعت کا مظہر تھی۔

آج، وہ واشنگٹن میں مقیم ہیں، جسمانی طور پر ڈائلیسس جیسے آزمائش بھرے مرحلے سے گزر رہے ہیں، لیکن ان کا جذبہ، فکری روشنی، اور خدمت کا عزم آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ ان کی ذات میں نہ تھکن ہے، نہ شکوہ، نہ مایوسی۔ وہ زندہ مثال ہیں اس سچائی کی کہ جو لوگ دوسروں کے لیے جیتے ہیں، وقت اُن پر حاوی نہیں ہوتا — بلکہ وہ وقت کی قید سے بلند ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر غوث صرف ایک محقق، لکھاری، مقرر یا کارکن نہیں — وہ ایک نظریہ ہیں، ایک ایسا وژن جو انسان کو انسان کے روپ میں دیکھتا ہے، بغیر کسی لیبل کے۔ “مسٹر پلورلسٹ آف امریکہ” کی پہچان ان کے لیے کسی فخر یا تمغے سے بڑھ کر ایک ذمہ داری ہے — وہ ہر مذہب، ہر نسل، ہر پس منظر کے انسان کو برابر سمجھتے ہیں۔ ان کے دل میں نہ بغض ہے، نہ تعصب — وہ ابراہم لنکن کے اس قول کو اپنی زندگی کا منشور مانتے ہیں:
“Malice toward none.”
اور شاید یہی سوچ، یہی وسعتِ قلبی ہے جو انہیں وہ اندرونی سکون عطا کرتی ہے جو آج کی دنیا میں ناپید ہوتا جا رہا ہے
ڈاکٹر مائیک محمد غوث کی زندگی کے اوراق پلٹتے جائیں تو ہر صفحے پر ایک نئی دنیا آباد نظر آتی ہے — ایک ایسا بچپن جہاں مذہب، مسلک، نسل اور شناخت کی دیواریں موجود تو تھیں، مگر دلوں کے درمیان نہیں تھیں۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین، زرتشتی، شیعہ، سنی — سب ایک ہی دسترخوان پر بیٹھتے، ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے۔
ان کے والد کا آٹا پیسنے والا چھوٹا سا کارخانہ درحقیقت ایک سماجی تجربہ گاہ تھا، جہاں ہر رنگ، ہر ذات، ہر پس منظر کے لوگ آتے۔ اسی ماحول میں ڈاکٹر غوث نے کم عمری میں ہی انسانیت کے تنوع کو چھو لیا۔ وہ وہ نوجوان تھے جو مسجد میں سجدہ کرتے، کلیسا میں دعا مانگتے، بدھ مت مرکز میں خاموشی اختیار کرتے، اور مندر میں بھجن کی سریلی گونج سنتے۔ ان کی شخصیت میں مذہب کی نہیں، روحانیت کی خوشبو تھی — ایسی روحانیت جو نہ بانٹتی ہے، نہ محدود کرتی ہے بلکہ دلوں کو جوڑتی ہے۔
یہی وسعتِ فکر انہوں نے اپنے بچوں میں بھی منتقل کی۔ چاہے چرچ ہو یا مسجد، مندر ہو یا وہ جگہیں جہاں وِکا، پیگن، یا ایل جی بی ٹی کمیونٹیز اپنے روحانی جذبات کا اظہار کرتی ہیں — ڈاکٹر غوث نے ہمیشہ چاہا کہ ان کے بچے ہر عقیدے کو دیکھیں، سمجھیں، اور سیکھیں کہ دوسرے کی عبادت کو عزت دینا دراصل اپنے انسان ہونے کا اعتراف ہے۔
وہ محض بین المذاہب نکاح کے گواہ نہیں — وہ دلوں اور روحوں کے درمیان ہم آہنگی کے امین ہیں۔ ان کی قیادت میں 500 سے زائد شادیوں کا انعقاد ہوا، جن میں جاپان سے لے کر افریقہ، یورپ سے لے کر لاطینی امریکہ تک کے افراد شریک ہوئے۔ ہر نسل، ہر مذہب، ہر زبان، ہر رنگ — سب ایک ہی محبت کے سائے میں یکجا ہوئے۔ ان شادیوں نے تعصب کو شکست دی اور قبولیت کی شمع روشن کی۔ ڈاکٹر غوث صرف ایک اسکالر نہیں، وہ ایک وژنری ہیں — ایسا وژن جو ایک ایسے امریکہ کا خواب دیکھتا ہے جہاں ہر زبان کو جگہ ملے، ہر لباس کو آزادی ہو، ہر عقیدے کو احترام حاصل ہو، اور جہاں اختلاف رائے نفرت کی نہیں، بلکہ خوبصورتی کی علامت ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ خواب صرف اس وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب انسان خود اپنے اندر چھپے تعصبات کو پہچانے، اور انہیں ترک کر کے ایک نیا، بہتر انسان دریافت کرے۔
ان کی کتاب “American Muslim Agenda” محض ایک ادبی کاوش نہیں — یہ ایک آئینہ ہے، جو امریکہ میں بسنے والے ہر مسلمان کو اپنے وجود کا عکس دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک مسلمان، ایک سچا امریکی کیسے بن سکتا ہے — جو اپنے دین کی روح کے ساتھ، اپنے وطن کے جذبے میں بھی رچا بسا ہو آج جب زندگی کی دھوپ چھاؤں سے گزر کر وہ 73 برس کی عمر میں بھی متحرک، مصروف اور بیدار ہیں—جب جسم تھکن کا اظہار کرتا ہے، اور صحت وقتاً فوقتاً آزمائش بن جاتی ہے—تب بھی ان کی روح میں وہی شعلہ، وہی تڑپ، وہی ولولہ پوری شدت سے زندہ ہے۔
ان کی شریکِ حیات فاطمہ نہ صرف ان کی زندگی کی ہمسفر ہیں بلکہ ان کے مشن کی ہم آواز بھی ہیں۔ بین الثقافتی اور لاطینی شادیوں کے تناظر میں، وہ ڈاکٹر غوث کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں—ایک خاموش قوت، ایک پُرعزم رفیق۔

ڈاکٹر مائیک غوث خود ایک چلتی پھرتی درسگاہ ہیں—نہ تختی، نہ کتاب، نہ کلاس روم—پھر بھی ان کی موجودگی سکھاتی ہے، ان کی خاموشی سمجھاتی ہے، اور ان کا وجود جوڑتا ہے۔ وہ قید نہیں کرتے، آزاد کرتے ہیں؛ وہ سیاہی سے نہیں، دل کی دھڑکن سے لکھتے ہیں۔ ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم ان کے دور میں زندہ ہیں—ایک ایسا دور جس میں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ محبت، احترام اور برداشت ہی وہ خزانے ہیں جن سے انسانیت کی زمین زرخیز ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مائیک غوث صرف “مسٹر پلورلسٹ آف امریکہ” نہیں، وہ ایک خاموش انقلابی ہیں—جو بینر اٹھائے بغیر بغاوت کرتے ہیں، جو نعرے لگائے بغیر تبدیلی لاتے ہیں، جو نفرت کے بیچ محبت کے پھول اگاتے ہیں، اور جن کی شفقت میں وہ گہرائی ہے جو روح کو چھو جائے۔ میرا سلام، میرا خراج، اور میری دعا—آپ کے لیے، جو صرف زندہ نہیں رہے، بلکہ زندگی کو روشنی سے بھر دینے کا فن جانتے ہیں۔ اختتام ہمیشہ کسی لطیف اداسی سے آشنا ہوتا ہے—خاص طور پر جب بات ایسے انسان کی ہو، جس نے زندگی کو صرف جینے کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی زندگی میں چراغ جلانے کے لیے گزارا ہو۔
ڈاکٹر مائیک غوث عام انسان نہیں۔ وہ ان نایاب نفوس میں سے ہیں جن کی ذات خود ایک دعا بن جاتی ہے؛ جن کی خاموشی ایک پیغام بن جاتی ہے؛ اور جن کی موجودگی انسانیت کی بلند ترین آواز بن کر گونجتی ہے۔
وہ صرف پلورلزم کے داعی نہیں، بلکہ ضمیر کی وہ روشنی ہیں جو وقت کی دھند کو چیر کر سچ کو نمایاں کرتی ہے۔ وہ وہ صدا ہیں جو نفرت کے اندھیروں میں محبت کا چراغ جلاتی ہے۔ وہ وہ آئینہ ہیں جس میں ہر نسل، ہر مذہب، ہر رنگ اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔
ان کے اندر ایک ایسا سیاسی شعور بھی جاگتا ہے جو کسی جماعت سے وابستہ نہیں، بلکہ صرف انصاف اور صداقت کا علَم بردار ہے۔ ان کی تحریریں مضامین نہیں بلکہ دل کی دوا ہیں۔ ان کے خطابات صرف جملے نہیں بلکہ آئینے ہیں—جن میں ہر سننے والا اپنا بہتر روپ تلاش کرتا ہے۔

وہ ایک فطری فلسفی ہیں—ایسا فلسفی جو ہر مذہب کے مرکز میں چھپی سچائی کو تلاش کرتا ہے، اور پھر اس سچائی کو محبت کی لے میں بُن کر دلوں کے سپرد کر دیتا ہے۔
وہ نکاح پڑھانے والے نہیں، دلوں کے معمار ہیں۔ وہ نفرتوں کے درمیان، خاموشی سے، ایسی پل تعمیر کرتے ہیں جو قوموں، عقیدوں، نسلوں اور روحوں کو جوڑتے ہیں۔
ان کی آنکھوں میں وقت کی دھند ضرور ہے، مگر دل میں آج بھی وہی روشنی ہے—جو صرف سچ کے متلاشی بچے کے یقین میں پائی جاتی ہے
انہوں نے جہاں بھی قدم رکھا — چاہے وہ ڈیلس کی کسی پرانی گلی کا موڑ ہو، سعودی عرب کی کسی تھکی ہوئی پروجیکٹ سائٹ کا کنارہ، یا واشنگٹن ڈی سی کی سیاست سے لدی راہداری کا فرش — وہاں انہوں نے صرف مکالمہ نہیں کیا، ماحول کو مہذب کیا، فضاء کو فکری خوشبو بخشی، اور گفتگو کو خیر خواہی میں بدل دیا۔
ان کے نزدیک ہر نام قابلِ احترام ہے، ہر مذہب معتبر، ہر لباس باوقار، اور ہر چہرہ ایک آئینہ — جس میں انسانیت کا عکس جھلکتا ہے۔ وہ نہ صرف دوسروں کے عقائد کو سمجھتے ہیں بلکہ دل سے ان کا احترام بھی کرتے ہیں — اور یہی ان کی شخصیت کا اصل جمال ہے۔
اور جب ہم ان کے وجود کو دیکھتے ہیں — ایک ایسا شخص جو ڈائلیسس جیسے جسمانی امتحان سے گزر رہا ہے، لیکن جس کی روح آج بھی جوان، متحرک، زندہ، جلتی، اور چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے — تو دل گواہی دیتا ہے کہ محبت کبھی ضعیف نہیں ہوتی، اور انسانیت کبھی ریٹائر نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر مائیک غوث کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر دل میں انسانوں کے لیے جگہ ہو، جذبہ قائم ہو، اور دوسروں کے لیے جینے کا حوصلہ سلامت ہو — تو سب کچھ کھو کر بھی سب کچھ جیتا جا سکتا ہے۔
ان کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ وہ صرف تحریر کے قابل نہیں — وہ ایک دعا کے مستحق ہیں۔ ایسی دعا، جو وقت سے بھی بلند ہو:
“اے وقت! اگر تُو رک سکتا ہے، تو پل بھر کو رک جا…
کیونکہ ایسی روحیں صدیوں میں ایک بار اترتی ہیں…
اور جب وہ چلی جائیں، تو وقت خود یتیم ہو جاتا ہے۔”
ڈاکٹر غوث، آپ صرف ایک فرد نہیں — آپ ایک مشن ہیں، ایک مسلسل جاری رہنے والی مشقِ محبت، اور ایک ایسا محورِ انسانیت، جس کے گرد دلوں کا نظام رواں رہتا ہے۔
ہم دل سے دعا گو ہیں کہ آپ کی روشنی کبھی مدھم نہ ہو — نہ جسم کی کمزوری سے، نہ دنیا کی غفلت سے، نہ وقت کی گرد سے۔ آمین۔
