خواب، لالچ اور راہ کا سوال — حلال و حرام کے بیچ بھٹکتی ہماری کمیونٹی کس سمت جا رہی ہے؟


خواب، لالچ اور راہ کا سوال — حلال و حرام کے بیچ بھٹکتی ہماری کمیونٹی کس سمت جا رہی ہے؟

تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ

آج ایک مخلص دوست نے خیرخواہی میں مشورہ دیا: “خان صاحب! آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، مگر اتنا کڑوا سچ نہ لکھا کریں، کمیونٹی میں کنٹروورشل ہو رہے ہیں۔” میں نے صرف اتنا پوچھا: “کیا جو میں لکھتا ہوں، وہ جھوٹ ہے؟” وہ خاموش نہ رہے، کہنے لگے: “سچ ہے، مگر زمانے کے حساب سے خطرناک ہے۔” اس لمحے میرے اندر کا صوفی جاگا۔ میں اسطرح دو دن خاموش رہا، سوچتا رہا، اور دل نے مجھے بلھے شاہ کے در پر لے جا بٹھایا۔ وہی بلھے شاہ، جس نے نفس کو ڈھگے سے، اور زندگی کو گڈے سے تشبیہ دی۔ُ

بلھیا جے ڈھگا سدھے راہ جاوے

گڈا ہچکولے کیوں کھاوے

بابا بلھے شاہ اپنی شاعری میں “نفس” کو بیل (ڈھگا) اور “جسم” کو ریہڑے (گڈا) سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب نفس راستہ بھٹک جائے تو جسم کی زندگی بھی ہچکولے کھاتی ہے۔

جے بچنا ای ٹبیاں کھائیاں توں

اینھوں زبح کرا قصائیاں توں

مگر نفس جب تک ذبح نہ ہو، بندہ کبھی نہیں سنبھلتا۔، اور اگر سنبھلنا ہے، تو پھر اس نفس کو خواہشات کو، لالچ کو، اور مصلحتوں کو قربانی کی چھری کے نیچے رکھنا ہوگا۔  بابا بلھے شاہ کی شاعری کڑوا سچ تھا اور سچ بولنے پر انکو اسوقت کے مولویوں نے فتوے لگادیئے جب انکا انتقال ہوا تو انکی نماز جنازہ تک مولویوں نے نہیں پڑھائی اور ایک خواجہ سرا نے انکی لاش کو شہر سے دور لے جاکر دفنادیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے  مگر بلھے شاہ کی خاموش قبر آج بھی بول رہی ہے۔ وہی جو کہتا ہے:  “بلھیا اسیں مرنا ناہی، گور پیا کوئی ہور”

اسطرح یہ حقیقت ہے کہ کائنات سجدوں سے نہیں، سچائی سے جیتی ہے۔ اسلیئے  اگر میں سچ بول کر رسوا ہوتا ہوں، تو یہ رسوائی میرے رب کی رضا سے بہتر سودا ہے۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جو دیس کی گلیوں سے نکل کر پردیس کی شاہراہوں تک آنکھوں میں سجے رہتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش جیسے ممالک سے جب لوگ امریکہ آتے ہیں، تو ان کی جیب میں صرف ویزا نہیں بلکہ امید کا وہ پرزہ ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے: “دنیا کی جنت یہاں ہے، بس پہنچنا باقی ہے۔” ان میں سے ننانوے فیصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو غربت، بےروزگاری، ناانصافی اور محدود مواقعوں کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی تلاش میں آتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ دن رات کی محنت، ایمانداری، اور صبر کے بل پر وہ مقام حاصل کرتے ہیں جسے سچ کہلانے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں خوابوں کی تعبیر جلدی چاہیے، فوری چاہیے، اور کسی بھی قیمت پر چاہیے۔ یہ لوگ راستے نہیں ڈھونڈتے، بلکہ شارٹ کٹس کھودتے ہیں اور شارٹ کٹ اکثر غیرقانونی اور حرام راہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ میرے چالیس سالہ صحافتی سفر میں میں نے زندگی کے ہر شعبے کو قریب سے دیکھا چاہے وہ سیاست ہو یا تجارت، مذہب ہو یا میڈیا، طب ہو یا قانون، تعمیرات ہوں یا تعلیم، فنون لطیفہ ہو یا مالیات، ہر جگہ کچھ لوگ ایسے ضرور نکلے جو لوپ ہولز کے پیچھے بھاگتے ہیں، جو سچ کو دباتے ہیں اور موقع کو غبن میں بدل دیتے ہیں۔ چور ہر جگہ موجود ہیں، بس ان کے طریقے مہذب ہوتے جا رہے ہیں۔ چھوٹے موٹے فراڈ، ہیرا پھیری، اور حقوق تلفی تو اب عام سی بات ہو گئی ہے، چھوٹی موٹی ہیرا پھیری پر ایف بی آئی بھی وقت ضائع نہیں کرتی، وہ تو تب آتی ہے جب دائرہ حرام حد سے بہت باہر نکل جائے۔

اسطرح امریکہ آنے کے بعد یہاں بھی اس  مجھے اس صحافتی زندگی نے بہت کچھ دکھایا۔ انصاف کے ایوانوں سے لے کر مسجد کی صفوں تک، بزنس کلاس کے لاؤنجز سے لے کر ریسٹورنٹ کی پچھلی دیوار تک ہر جگہ وہ چہرے نظر آئے جو کبھی نیکی کی مسکراہٹ میں لپٹے تھے، مگر اندر سے لالچ کی دیمک میں کھوکھلے ہو چکے تھے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے وہ خبریں لکھی ہیں جن میں اکاؤنٹنٹس اور بزنس مینوں نے جعلی ٹیکس ریٹرن فائل کر کے اسٹیمولس پیکج لوٹا، حکومتی امدادی اسکیموں کو مذاق بنایا، اور دھندہ صرف تگڑے کمیشن کا بنا لیا۔ میں نے وہ ڈاکٹر بھی دیکھے جنہوں نے میڈیکیڈ اور میڈیکیئر کے نظام کو لوٹا، ملین ڈالروں کا فراڈ کیا، اور پھر اپنے کلینک پر اسلامی کیلنڈر اور حدیث کی وال ہینگنگ لگا کر حج اور عمرہ کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن کیا۔

میں نے ایسے کاروباری بھی دیکھے جو اپنے ورکرز کے خون پسینے کے “اوور ٹائم” کو “ریگولر آور” بنا کر ان کا حق دباتے رہے اپنی تجوریاں بھرتے  گئے، مزدور کا گلہ گھٹتا گیا۔ مگر وقت نے انہیں بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا، اور قانون نے ان کے چہروں سے منافقت کا نقاب اتارا۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بھی قریب سے دیکھا جئاں ایک الگ ہی داستان ہے ایک طرف ٹیکس چوری، تو دوسری طرف معصوم دیسیوں کی بڑی رقوم ڈکار لی گئیں۔ بینک لونز، انشورنس کلیمز، فنڈ ریزنگ، ہر میدان میں گیم چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ دین کا دامن بھی چھلنی ہو چکا ہے۔ میں نے ان مولویوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو چندے کی رسی کو کاروبار کی زنجیر بنا چکے ہیں۔ وہ مولوی نہیں، “چندہ مافیا” ہیں، جو زکوٰۃ اور صدقے کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے  ہیں، چندہ فنڈ سے کمیشن لیتے اور دیتے ہیں، مسجدیں انکے ذاتی جاگیر ہیں،انکے بینک اکاؤنٹ میں وہ ملینرز ہیں۔ مگر یہ سب کہانیاں ایک دردناک سچ کو ظاہر کرتی ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ اس امریکہ میں بھی دو نمبری چھوڑنے کو تیار نہیں، جہاں انصاف اندھا نہیں، صرف صابر ہے۔ ایف بی آئی ہر چھوٹے کیس پر وقت ضائع نہیں کرتی، وہ صرف ان کے گلے میں ہاتھ ڈالتی ہے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں، اور لالچ میں اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔

حال ہی میں ڈیلس میں ایف بی آئی کی جانب سے حالیہ امیگریشن فراڈ کیس نے ایک بار پھر ہمیں وہی آئینہ دکھایا ہے جس میں ہمارا چہرہ دھندلا سا ہو گیا ہے۔ عبد الہادی مرشد اور محمد سلمان ناصر جیسے افراد، جن کے پاس بھی شاید ایک دن کوئی چھوٹا سا خواب رہا ہوگا، اب ان کے گھروں سے بندوقیں، زیورات اور ڈالروں کی گڈیاں برآمد ہو رہی ہیں۔ عدالت میں ثبوت، ان ہر ویزہ فراڈ، منی لانڈرنگ، جھوٹے اشتہارات، جعلی ملازمتیں، اور RICO قانون کے تحت سازش جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمہ  سامنے ہے اور کمیونٹی میں خوف و حراس کی ایک لہر ہے، جیسے ہر کوئی آئینہ دیکھ کر پوچھ رہا ہو: “کہیں میں بھی تو اسمیں نہیں؟” یہ کیس انکی حرام کمائی کی داستان ہے جنہوں نے سینکڑوں پاکستانیوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگادیا ہے، حالانکہ انکا کوئی قصور نہیں ۔  یہ پہلا موقع نہیں۔ بحیثیت صحافی، میں نے ہر شعبے میں ایسے لوگ دیکھے ہیں۔ ڈاکٹرز، بزنس مین، مذہبی رہنما، تنظیموں کے صدر جنہوں نے چوری کی، فنڈز ہڑپ کیے، اور کمیونٹی کی بھلائی کے نام پر ذاتی مفادات کے محل کھڑے کیے۔ کچھ بے نقاب ہوئے، کچھ ابھی تک شان سے جی رہے ہیں، بڑے بنگلوں میں، مہنگی گاڑیوں میں، اور جعلی عزتوں کی ملمع کاری میں۔

لیکن  امریکہ میں آگے بڑھنے کے لیے حرام کی سیڑھی شرط نہیں۔ ٹیکساس کی پاکستانی کمیونٹی میں مڈلینڈ سے سید جاوید انور جیسے لوگ آج بھی زندہ مثال ہیں جنہوں نے آئل بزنس، اور سرمایہ کاری میں محنت کی معراج حاصل کی۔ ڈیلس کے عبدالحفیظ خان،  نے اپنی انرجی ڈرنک کی سلطنت خالص محنت اور دیانت سے بنائی۔

اسی طرح ڈیلس کے ملٹی ملینئر امیر مکھانی، جو پاکستان میں “اپنی مدد آپ” کے تحت فلاحی ادارہ مکھانی ویلفیئر چلا رہے ہیں، اور عابد ملک، جو کئی گیس اسٹیشنوں کے مالک ہیں، ہمیشہ کمیونٹی کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محنت سے آگے بڑھے جو کمیونٹی کی بھی خدمت کرتے ہیں ایک ہاتھ سے دیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہیں ہونے دیتے۔ ایسے نیک دل لوگوں کی سینکڑوں مثالیں ہیں جنہیں میں نے نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ پہچانا بھی ہے،

اسطرح کمیونٹی میں اور  بھی متعدد لوگ ہیں  جو تھوڑے میں خوش، سچائی میں مطمئن، اور عزت کے ساتھ زندگی گزار گئے اور کئی گذار رہے ہیں، میں ایسے کئی ڈاکٹرز اور  کامیاب کاروباری شخصیات کو بھی قریب سے جانتا ہوں جنہوں نے کسی “شارٹ کٹ” کا انتخاب نہیں کیا، اور آج وہ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ عزت و وقار کا  نشان بھی ہیں۔ فرق صرف نیت کا ہے، طریقے کا ہے، ترجیح کا ہے۔ ایک راستہ وہ ہے جو سچائی سے، قربانی سے، دیر پا عزت سے بھرا ہے دوسرا وہ جو شارٹ کٹ سے، حرام سے، اور وقتی چمک سے لپٹا ہے، مگر آخر میں اندھیرے پر ختم ہو جاتا ہے۔

مگر اصل المیہ یہ ہے کہ ہم، بطور کمیونٹی، ایسے افراد کو “کامیاب” سمجھتے ہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہو، بڑی مہنگی گاڑیاں ہوں  یہی ہمارے لیے عزت دار ہوتے ہیں ، چاہے اس نے حلال کمایا ہو یا حرام۔ وہ آپ کا بجلی کا بل نہیں دے گا، آپ کے بچوں کی فیس نہیں بھرے گا، مگر وہ اس بنیاد پر سوشل میڈیا پر لائکس اور واہ واہ سمیٹے گا۔

میں نے کمیونٹی میں جہاں اچھے لوگوں کی محنت اور کاوشوں کو سراہا وہاآن ایسے افراد کو ہمیشہ بےنقاب کیا جو کمیونٹی کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ چاہے وہ “سلطانہ ڈاکو” ہو جو یتیموں اور معذوروں کے نام پر چندہ جمع کرتی ہے اور بعد میں اسلام آباد میں عمران خان کے گھر کے پیچھے اپنا بنگلہ بنوا لیتی ہے، یا وہ ڈیلس کے بلیک میلرز جو “ریسٹورینٹ حلال ریویو” کا نام لیکر ساعا کام حرام کا کررہے ہیں اور حرام کھارہے ہیں  وہ  پاکستانی ریسٹورنٹس کے مالکان کو جعلی ناموں سے رویو کے ذریعہ ان کو  بلیک میل کرکے ڈالرز بٹور رہے ہیں۔ کمیونٹی سب جانتی ہے کہ کون لوگ ان کا حصہ ہیں، کون انکو سیاسی اور سماجی شیلٹر فراہم کرکے انکی حرام خوری پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں اور کون واحد وہ شخص ہے جو اس ظلم اور جبر اور بلیک میلنگ کے خلاف ان کے سامنے کھڑا ہے۔

جاگو ٹائمز کا اصول واضح ہے: نہ ہم خبر بیچتے ہیں، نہ عزت۔ ہم نہ اشتہار لیتے ہیں، نہ سودا کرتے ہیں۔ میں برسوں سے اپنے بزنس کی کمائی سے اس اخبار کو چلارہا ہوں  تاکہ مجھ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، اور میں بےخوف ہو کر لکھ  بھی سکوں اور سچ بول سکوں۔ اسلیئے جاگو ٹائمز کا یہ عہد واضح ہے کہ ہم نہ جھکیں گے، نہ بکیں گے، نہ خاموش رہیں گے۔ سچ کو بلند کریں گے، حرام کو بےنقاب کریں گے، اور ہر اس آواز کا ساتھ دیں گے جو اپنے دل میں دیانت کا چراغ رکھتی ہے۔ ہم کبھی بھی جعلی نمائندوں، فراڈیوں یا بلیک میلروں کے ساتھ نہیں جڑے نہ ان کے ساتھ جو زکوٰۃ، خیرات، یا مذہب کے نام پر چندہ کے ذریعہ پیسہ بٹورتے ہیں جبکہ وہ  سوشل میڈیا پر انقلابی شاعری  اور قران اور احادیث کی آڑ میں نیکی کے سفیر بنتے ہیں۔ مگر اصل میں یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی اور فلاحی تنظیموں کے جھنڈے تلے اور ان آیات کو ڈھال بناکر اپنے مفادات کے پر پھیلاتے ہیں اور پھر دل کو بہلانے والے اقوال پوسٹ کر کے اپنی حرص پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ لوگ “ڈائنیں” ہیں، ایسی ڈائین جو کوئی بھی گھر نہیں چھوڑتیں۔ جس مال پر ہاتھ پڑے، ہضم کرجاتے  ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔۔

میں نے اپنی زندگی کے صفحات پر وہ چہرے بھی دیکھے، جو دولت کی چمک میں نہائے ہوئے تھے، مگر اندر سے کھوکھلے، زخم خوردہ، اور بوسیدہ۔ وہ جنہوں نے دوسروں کا حق کھایا، حرام کی کمائی سے محل کھڑے کیے، وہ یا تو لاعلاج بیماریوں میں جکڑ دیے گئے، یا پھر وہی اولاد، جس کے لیے انہوں نے جہنم خریدی، ایک دن وہ ان کی پہچان سے ہی انکاری ہو گئے۔ یہاں امریکہ میں اکثر زبانوں پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے:

“ہم یہاں پیسہ بنانے آئے ہیں”

لیکن دلوں میں یہ نیت کم ہی دکھائی دیتی ہے کہ ہم یہاں کچھ بہتر چھوڑ جائیں، کچھ سچا، اور کچھ قابلِ فخر۔

پیسہ اور ڈالر کمانا کوئی برائی نہیں، اگر اس میں دیانت کی خوشبو ہو۔ مگر افسوس، کہ یہاں مولوی سے لے کر سرمایہ دار تک، اکثیریت پیسوں کے پجاری بن چکے ہیں۔

میں نے ان ملٹی ملینر کو بھی قریب سے دیکھا جو سونے جیسے محل میں رہتے ہیں، مگر کمیونٹی تو کیا اپنے خون سے بھی وہ وفا نہ کرسکے ایک طرف وہ محل اور شہر  کے دوسرے کونے میں ایک بیٹا بھوکے خواب دیکھتا پھرتا  ہے یہ زوال دولت کا نہیں، دل کا ہے۔ دولت کی چکا چوند میں گمشدگی یہ المیہ صرف چند افراد کا نہیں، یہ ہماری پوری کمیونٹی کا عکس ہے۔

ڈیلس کا یہ امیگریشن فراڈ کیس ہو یا ان لوگوں کی زندگیوں کی کہانی، جو راتوں رات امیر بننے کے خواب میں اندھوں کی طرح دوڑے، سب ہمیں ایک ہی سبق دیتے ہیں:

یہ شارٹ کٹ، یہ فریب، یہ لالچ اب ہماری کمیونٹی میں ایک اجتماعی بیماری بن چکی ہے، جو ہمارے باطن کو کھا رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خوابوں کو شارٹ کٹ کے بجائے محنت، صبر اور دیانت سے تعبیر دینا سیکھیں ورنہ حلال و حرام کے درمیان فاصلہ صرف ایک گرفتاری، ایک بیماری، یا ایک تنہائی کا رہ جائے گا۔ اور جب یہ سوچیں دل میں گونجیں، تو بلھے شاہ کی یہ صدا جیسے روح میں اتر جاتی ہے:

بلھے نوں سمجھاون آیاں، ناں بلھیا کرینوں

ایویں گلاں کر گیاں، ناں لبھیا کرینوں

یہ بابا بلھے شاہ کے کلام کا وہ گوہر ہے جو صدیوں کے تضادات کو دو سطروں میں سمو دیتا ہے بلھے شاہ کہہ رہے ہیں کہ زمانے کے لوگ، علما، واعظ، قاضی، اور “سمجھدار” لوگ اُسے سمجھانے آتے ہیں، اُسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، نصیحت کرتے ہیں کہ “بلھے! تو کیا کر رہا ہے؟ یہ جو تو عشق، حریت، اور حق کی باتیں کرتا ہے، یہ تیرے لیے خطرناک ہیں۔ خاموش ہو جا، حالات کے مطابق خود کو ڈھال لے۔” مگر بلھے شاہ ان سب کو ایک مسکراہٹ میں رد کر دیتا ہے، اور کہتا ہے:

“ایویں گلاں کر گیاں، ناں لبھیا کرینوں”

یعنی: میں وہ باتیں کرتا گیا، جنہیں تم فضول، بیکار اور خطرناک سمجھتے رہے اور وہ (رب) مجھے مل گیا، جس کی تم نے ساری عمر رسموں، عبادتوں، اور نصیحتوں میں تلاش کی،مگر نہ پا سکے۔

اسطرح یہ شعر دراصل اس پورے نظام پر طنز ہے جو حق کی تلاش کو رسموں میں قید کر دیتا ہے، جو دل کی سچائی کو زبان کی مصلحت سے بدلنا چاہتا ہے، اور جو ہر سچی آواز کو “نامناسب” قرار دے کر خاموش کرنا چاہتا ہے۔ بلھے شاہ یہاں صرف خود کو نہیں، ہر اُس سچے انسان کی نمائندگی کر رہا ہے جو معاشرے کی منافقت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ جو ظاہری مذہب کے پردے کے پیچھے چھپی روحانی غربت کو بےنقاب کرتا ہے، اور جو رب کو مسجد کی دیواروں کے بجائے دل کے سچ میں تلاش کرتا ہے۔

یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ سچ بولنے والے اکثر تنہا ہوتے ہیں مگر وہی تنہائی انہیں خدا کے قریب لے جاتی ہے۔ جو صرف رسم و رواج کے غلام بنے رہتے ہیں، وہ خدا کو نہیں، بس اُس کے نام کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے “ہاں” کے روایتی سانچوں سے انکار کیا، اور اس انکار ہی میں سچائی کو پایا۔ وہ سماج کی ظاہری منظوری سے نکل کر حقیقت کے “نہ” میں جا کھڑے ہوئے جہاں بندہ نہیں، صرف رب رہ جاتا ہے


اپنا تبصرہ لکھیں