سفارتی معرکہ: پاکستان بمقابلہ بھارت دلیل جیتے گی یا تعداد؟


سفارتی معرکہ: پاکستان بمقابلہ بھارت دلیل جیتے گی یا تعداد؟

رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ

جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتیں پاکستان اور بھارت ایک بار پھر عالمی سطح پر آمنے سامنے ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس پر بھارتی ردعمل، پھر پاکستان کا جوابی بیانیہ، ایک نئی سفارتی جنگ کو جنم دے چکا ہے۔ مگر یہ جنگ اب صرف سرحدی کشمکش نہیں، یہ بیانیے، رائے عامہ، اور بین الاقوامی اعتماد کی لڑائی ہے۔ اب میدان میں بندوق نہیں، دلیل اور وقار کی زبان بولی جا رہی ہے اور یہ زبان دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں گونج رہی ہے۔

پاکستان نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک ایسا وفد ترتیب دیا ہے جو تعداد میں محدود ضرور ہے، لیکن وقار، تجربے اور بین الاقوامی سفارتی فہم سے لبریز ہے۔ اس میں حنا ربانی کھر، شیری رحمان، جلیل عباس جیلانی، تہمینہ جنجوعہ، خرم دستگیر، مصدق ملک، اور فیصل سبزواری جیسے چہرے شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر نہ صرف وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں بلکہ عالمی کانفرنسوں، اقوام متحدہ، اور واشنگٹن و برسلز جیسے مقامات پر پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کرنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔

شیری رحمان، جو امریکہ میں سفیر رہ چکی ہیں، واشنگٹن کے سیاسی ماحول اور تھنک ٹینک نیٹ ورکس سے بخوبی واقف ہیں۔ حنا ربانی کھر، بطور پہلی خاتون وزیر خارجہ، عالمی سفارتی اسلوب سے مکمل طور پر آشنا ہیں۔ تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی جیسے کیریئر سفارتکار بیوروکریسی اور عالمی سفارتی پروٹوکول کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ اگرچہ فیصل سبزواری جیسے چہرے کی شمولیت پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ان کا براہ راست سفارتی تجربہ نہ ہونے کے باوجود انہیں شامل کیوں کیا گیا، تاہم ممکن ہے حکومت ایک سیاسی توازن دکھانا چاہتی ہو۔ اس کا اثر سفارتی تاثر پر ضرور پڑتا ہے۔

پاکستان کا یہ وفد لندن، پیرس، برسلز، ماسکو اور واشنگٹن جیسے مراکز کا ممکنہ دورہ کرے گا، جہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، اور بھارت کا رویہ نہ صرف علاقائی استحکام بلکہ عالمی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی اجاگر کیا جائے گا کہ بھارت، پہلگام جیسے حملوں کو عالمی ہمدردی اور حمایت کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

اس کے مقابلے میں بھارت نے “آپریشن سندور” کے نام سے ایک بڑی اور جارح سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے، جو کہ سات مختلف آل پارٹی وفود پر مشتمل ہے، اور ان میں کل 59 ارکان شامل ہیں۔ یہ وفود 21 مئی سے 5 جون کے درمیان 32 ممالک کے دورے پر مامور کیے گئے ہیں۔ ان کا مقصد دنیا بھر میں، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل و غیر مستقل ارکان تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کو سپورٹ کرتا ہے، اور بھارت اس کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے۔

ان وفود کی قیادت ششی تھرور، روی شنکر پرساد، بیجے پنڈا، سنجے جھا، کانیموژی، سپریا سُولے، اور شری کانت شنڈے جیسے مختلف سیاسی رہنما کر رہے ہیں۔ ششی تھرور، جو اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار بھی ہیں، امریکہ، برازیل، کولمبیا، گیانا اور پاناما کا دورہ کر رہے ہیں۔ روی شنکر پرساد یورپ کی قیادت میں سرگرم ہیں، اور ان کے وفد نے فرانس، جرمنی، برطانیہ اور برسلز میں بھارتی مؤقف اجاگر کیا۔ دیگر وفود نے عرب دنیا، افریقہ، جنوبی کوریا، جاپان، ملائیشیا، اور انڈونیشیا جیسے خطوں کا دورہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بھارت نے اس مہم کو “آل پارٹی” قرار دیا ہے، مگر اس کی اندرونی سیاسی حقیقت کچھ اور ہے۔ کانگریس جیسی اپوزیشن جماعت کی سفارشات نظرانداز کی گئیں، اور کئی ارکان جیسے ششی تھرور کو ان کی پارٹی کی منظوری کے بغیر نامزد کیا گیا۔ اس سے بھارتی بیانیے کی “قومی یکجہتی” کی تصویر پر دھبہ لگ گیا۔ سفارتکاری جیسے حساس محاذ پر، اگر سیاسی انتقام یا پارٹی مفاد کو فوقیت دی جائے، تو مقصد کمزور اور تاثر مشکوک ہو جاتا ہے۔

بھارتی وفد اسوقت امریکہ میں موجود  ہے اور  حال ہی میں  نیویارک میں ششی تھرور کی تقریر، جس میں انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت پاکستان سیز فائر ثالثی کے دعوے پر تنقید کی، اس بات کی علامت تھی کہ بھارت اس مہم کو صرف پاکستان کے خلاف ہی نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کی جانب سے کسی بھی توازن کی کوشش کے خلاف ایک دباؤ کی مہم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

پاکستانی وفد کا پڑاؤ واشنگٹن ہے، جہاں وہ 3 جون سے 6 جون تک قیام کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی مشیر، سینیئر قانون ساز، تھنک ٹینکس اور میڈیا اداروں کے ساتھ ملاقاتیں طے ہیں۔ اگر پاکستان اس موقع کو حکمت، وضاحت اور وقار کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ بھارتی شور کو دلیل کی روشنی سے پسپا کر دے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان صرف ردعمل نہ دے، بلکہ متبادل بیانیہ پیش کرے ایک ایسا بیانیہ جو صرف سیاسی نہ ہو، بلکہ فکری ہو۔ ایسا بیانیہ جس میں امن کی طلب، دلیل کی طاقت، اور سچ کی روشنی ہو۔ دنیا شور سے متاثر ہو سکتی ہے، لیکن وہ قائل صرف سچ سے ہوتی ہے۔

بھارت بلاشبہ عالمی سطح پر زیادہ متحرک ہے، اس کے وفود زیادہ ممالک میں سرگرم ہیں، مگر کیا وہ سچ کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا وہ جو دکھا رہے ہیں، اس پر خود یقین رکھتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا دنیا ان کی نیت کو بھانپ نہیں لے گی؟

اور اب، جب دنیا ایک بار پھر جنگ و امن کے بیچ کھڑی ہے، سفارتی میدان میں دلیل، وقار، اور نیت کا تول ہو رہا ہے یہ وہ لمحہ ہے جہاں سچ خاموش رہ جائے تو جھوٹ گونجنے لگتا ہے، اور اگر جھوٹ زور سے بولا جائے تو سچ کو دلیل کی زبان میں لوٹنا پڑتا ہے۔

پاکستان اور بھارت، دونوں عالمی ضمیر کے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک، شور و شعلے کے ساتھ، الزام کی مشعل لیے۔ دوسرا، خاموشی کے ساتھ، سچ کی شمع تھامے۔ لیکن تاریخ فیصلہ کرتی ہے اور وہ شور نہیں سنتی، وہ صرف دیکھتی ہے: کس کے ہاتھ میں چراغ تھا، اور کس کے ہاتھ میں سایہ۔ سفارتی جنگیں بھی اب روایتی جنگوں کی طرح ہتھیار بن چکی ہیں بیانیہ ایک ہتھیار ہے، ملاقات ایک محاذ، اور سفیر ایک سپاہی۔ لیکن آخرکار، یہ وہ جنگ ہے جس میں گولی نہیں چلتی، مگر اعتماد زخمی ہو سکتا ہے۔ بیانیہ وہی جیتتا ہے جو صرف کہا نہ جائے، بلکہ سچائی کے ساتھ ثابت ہو۔ اور تاریخ ہمیشہ سچ کو یاد رکھتی ہے شور کو نہیں۔

یہ سفارتی معرکہ قوموں کی اصل عکاسی بن کر ابھرے گا جو ملک امن کا خواہاں ہو، وہ دلیل سے بات کرتا ہے۔ جو ملک خوف بانٹے، وہ شور مچاتا ہے۔ مگر عالمی برادری اب تماشائی نہیں وہ دیکھ رہی ہے کہ کون سچ کہہ رہا ہے، اور کون جھوٹ دکھا رہا ہے۔

آج کی یہ لڑائی شاید اخبارات کی سرخیوں میں دب جائے، شاید ٹی وی مباحثوں میں بانٹی جائے، لیکن کل جب تاریخ لکھی جائے گی، تو وہ صرف وہی سطر محفوظ کرے گی، جو صداقت سے لکھی گئی ہوگی۔

بھارت “آپریشن سندور” کے نام پر جارح سفارتکاری کا ہتھیار تھامے میدان میں آیا ہے، تو پاکستان “بنیان المرصوص” کی مانند دلیل، تدبر اور امن کی چٹان بن کر کھڑا ہے۔ ایک طرف الزامات کی گرج ہے، دوسری طرف صداقت کی روشنی۔ خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حالیہ تقریر میں طنز و نفرت سے لبریز لہجے میں کہا: ہم ان کے گھروں میں گھس کرماریں گے، پاکستان کو عبرت کی مثال بنائیں گے، یہ نئی بھارت کی پالیسی ہے نہ برداشت، نہرحم!” اور پھر اسی سانس میں مزید کہا: اب دنیا کو چن کر دکھائیں گے کہ دہشتگردیکہاں پلتی ہے!”

ایسے جملے صرف الفاظ نہیں، ریاستی جارحیت کی دستاویزی گونج ہوتے ہیں وہ گونج جو کسی بھی امن پسند قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔ جب ایک وزیر اعظم، عوامی جلسے میں دشمنی کو للکار میں بدل دے، تو سفارتکاری بھی خندق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔لیکن پاکستان نے، ان نعروں کا جواب گولی سے نہیں بلکہ گفتار سے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان امن کا وہ سفیر ہے جو شور کے درمیان سچ کی سرگوشی بن کر آیا ہے۔ اس نے عالمی برادری سے کہا ہے: ہم سے بات کریں، ہم دلیل دیں گے؛ ہم پر الزام لگائیں، ہم ثبوت مانگیںگے؛ لیکن ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم بھی چپ رہ جائیں۔

اور جب تاریخ ان لمحوں کو پرکھے گی، تو وہ صرف دیکھے گی کہ کون سفارتی اسلحے سے آیا، اور کون امن کا پیغام لے کر۔

بھارت چاہے جغرافیہ میں آگے ہو، لیکن پاکستان دلیل، توازن، اور حقیقت کے پلّے پر بھاری ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بیانیے محض کہے نہیں جاتے جیتے جاتے ہیں۔ اور جب دنیا کی عدالت میں سچ اور شور آمنے سامنے ہوں

تو پاکستان یہ کہنے آیا ہے:

’’ہم جنگ نہیں، سچ جیتنا چاہتے ہیں۔‘‘


اپنا تبصرہ لکھیں